اسلام آباد میں چند اچھے دن مگر لاہور لاہور ہے
میں بڑی دیر کے بعد اسلام آباد آیا تھا۔ یہاں جنرل راحیل شریف سے ملنا چاہتا تھا۔ مریم نواز سے بھی ملنے کا خیال تھا مگر یہ لوگ کہاں ہوتے ہیں اور ان سے رابطہ کیسے ہوتا ہے۔ مجھے معلوم نہیں ہے۔ مریم نواز نے دو ایک بار مجھے فون کیا تھا۔ میری کالم نگاری کے حوالے سے اس کے کچھ تحفظات اور تاثرات تھے جو اچھے لگے۔ چودھری نثار مجھے پسند ہیں۔ وہ وزیر شذیر نہیں ہیں۔ سچ مچ کے وزیر داخلہ ہیں انہیں نیشنلائز ہونا چاہیے۔
نوائے وقت اسلام آباد کا راستہ تو میری گاڑی ڈرائیو کرنے والے برادرم محمد سعید نیازی کو بھی معلوم ہے۔ برادرم نواز رضا سے ہیلو ہائے ہوئی۔ زور ہائے پر ہے۔ شاید ہائے کا مطلب کچھ اور ہو گیا ہے۔ میں نے ان سے کوئی بات کی تو انہوں نے کہا کہ ریذیڈنٹ ایڈیٹر جاوید صدیق سے مل لو۔ میں جاوید بھائی سے ملا۔ کھل کر باتیں ہوئیں۔ نوائے وقت کے حوالے سے بھی بات ہوئی۔ بڑ مزہ آیا۔ میں نے اس دن یہاں اپنا کالم دیا اور واپس آ گیا۔
ابھی صرف عائشہ مسعود سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ بہت اچھی شاعرہ ہیں اور ہماری ساتھی کالم نگار ہیں۔ انہوں مرشد و محبوب مجید نظامی کے لیے ایک بہت اچھی بائیو گرافی بھی لکھی ہے۔ ’’جب تک میں زندہ ہوں‘‘ کتاب کا نام ہے۔ نظامی صاحب جب تک زندہ رہے زندگی ان کی منتظر رہی۔ اس دوران لاہور نوائے وقت میں کئی بار عائشہ آئیں۔ محترم جسٹس آفتاب فرخ سے بھی اس کی ملاقات ہوئی۔ جسٹس صاحب اپنا بہت سا وقت نظامی صاحب کے ساتھ گزارتے تھے۔ ایڈیٹر نوائے وقت رمیزہ نظامی سے بھی عائشہ کی ملاقات ہوئی۔ اس بار ہم اسلام آباد میں مہمانوں کی طرح تھے اور میزبان کوئی نہ تھا مگر عائشہ بی بی نے ہمارا بہت خیال کیا۔
ان کے ساتھ سٹی مسلم لیگ ن کے نائب صدر زاہد مقبول صدیقی سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے تقریب کی صدارت کی۔ زاہد مقبول کا خیال ہے کہ لٹریچر کے تھرو تبدیلی لائی جائے۔ وہ خود ادبی سرگرمیوں میں بہت دلچسپی لیتے ہیں۔ اس ہنگامی طور پر ہونے والی تقریب میں بہت اچھی باتیں ہوئیں۔ عائشہ مسعود نے ساجد منظور کی تعریف کی کہ اس نے بہت تعاون کیا ہے۔ نسیم سحر نے کہا کہ ملک کے سکالرز سے رابطہ ہونا چاہیے۔ آپس میں رابطہ روابط کو بڑھاتا ہے۔ قیوم طاہر نے کندیاں ضلع میانوالی سے یہاں شفٹ کیا ہے۔ ان کے طرز گفتگو اور طرز تعلقات میں یہ خوشبو رچی بسی ہوئی ہے۔ میں نے گارڈن کالج پنڈی سے آغاز کیا تھا۔ تب احمد شمیم کی آواز چاروں طرف سے آتی تھی۔
کبھی ہم خوبصورت تھے
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
کہ ہم نے جگنوئوں کے تتلیوں کے دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
منیرہ شمیم احمد شمیم مرحوم کی اہلیہ ہیں۔ وہ بہت اچھے افسانے لکھتی ہیں۔ انہوں نے مرحوم شوہر کو زندہ رکھا ہے۔ ان کی برسی مناتی ہیں۔ سالگرہ بھی مناتی ہیں۔ ایک بہت تخلیقی آدمی بہت اچھے شاعر آفتاب اقبال شمیم بھی ہیں۔ وہ گارڈن کالج میں میرے کولیگ تھے۔ برادرم پروفیسر سجاد شیخ اور ان کے ساتھ بہت کمپنی رہتی تھی۔
چوہدری نثار نے دھڑلے سے بات کی کہ دنیا مذہب کی بے حرمتی کو بھی دہشت گردی تسلیم کرے۔ ہم گستاخانہ مواد کے حوالے سے اقوام متحدہ میں آواز اٹھائیں گے۔ یہ بات صرف بیانات تک نہیں رہنا چاہیے لیکن اس موقع پر یہ جملہ معترضہ کہ کیا چوہدری صاحب مریم نواز کی کابینہ میں بھی وزیر داخلہ ہوں گے۔ وہ وزیراعظم کب بنیں گے؟ مریم نواز نے کہا کہ کرپشن کرنے والے چوہدری نثار سے ڈرتے ہیں۔ کرپشن تو چودھری صاحب کے زمانے میں بھی ہو رہی ہے۔ یہ طے ہے کہ چوہدری صاحب شفاف آدمی ہیں اسی لئے وہ بہادر اور غیور آدمی ہیں۔ وہ دشمنوں کے دشمن ہیں مگر کیا وہ دوستوں کے دوست بھی ہیں۔
ہم اکادمی ادبیات پاکستان گئے۔ عائشہ مسعود وہاں موجود تھی۔ ہم نے چیئرمین اکادمی ڈاکٹر قاسم بگھیو کے ساتھ کھانا کھایا۔ برادرم حسن عباس رضا کو بھی بگھیو صاحب نے بلا لیا۔ بڑا مزا آیا۔ بگھیو صاحب اکادمی میں کوئی کام کرنا چاہتے ہیں۔ بجائے اسلام آباد کے سارے صوبے کے ہیڈکوارٹر لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں کانفرنس کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے مقامات پر بھی ادیبوں، شاعروں کا اکٹھ کرنا چاہتے ہیں جہاں اس سے پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ملتان بھی وہ گئے ہیں۔ برادرم اظہر مجوکہ نے مجھے رپورٹ بھجوائی تھی۔
اب آزاد کشمیر مظفرآباد کے لئے مجھے بھی دعوت دی کہ میں مضمون بھی پڑھوں۔ وہاں آزاد کشمیر کے صدر اور وزیراعظم بھی شرکت کریں گے۔ عائشہ مسعود بھی وہاں ہو گی۔ عائشہ نے کشمیر کے حوالے سے بہت کام کیا ہے۔ بہت جرأت سے یہ کتاب لکھی ہے۔ ’’کشمیر - 2014‘‘۔ یہ کتاب اس نے مرشد و محبوب مجید نظامی کی زندگی میں لکھنا شروع کی تھی۔ انہوں نے دو ابواب دیکھنے کے بعد شاباش بھی دی مگر یہ نامور کتاب ان کی وفات کے بعد سامنے آئی۔ عائشہ مسعود کا شعری مجموعہ ’’سخن اس کے ستارے ہیں‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ اس کی نئی کتاب کا نام ’’بالکنی‘‘ ہے۔ بالکنی کا استعارہ اس کی شاعری میں مختلف معنویت کے ساتھ کئی بار ظاہر ہوا ہے۔
مظفر آباد کے علاوہ گلگت‘ فاٹا وغیرہ ادبی کانفرنسیں ہوں گی۔ یہ بالکل منفرد اور قومی سطح کا پروگرام ہو گا۔ سب کو اسلام آباد بلانا مشکل ہوتا ہے مگر اس طرح سب لوگ شرکت کر سکیں گے۔ بگھیو صاحب سے ملاقات بہت دوستانہ رہی۔
پھر ہم نیشنل بک فاؤنڈیشن گئے۔ برادرم ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے کتابوں کے لئے اس دفتر کو پہلے کتاب گھر بنایا۔ پھر کتاب محل بنا دیا۔ یقیناً انہوں نے بڑا کام کیا ہے۔ دفتر کی ہر بات کو کتاب کے ساتھ منسلک کر دیا ہے۔ میں پہلے بھی یہاں آیا ہوں مگر اب کے تو دنیا ہی نئی تھی۔
آخر میں عائشہ ایک پروگرام میں لے گئی قلم اور کالم۔ میں نے کہا کہ یا قلم ک والا کلم ہو یا کالم دو نقطے والا قالم ہو۔ عائشہ نے بہت اہم بات کی کہ افغانستان کے حوالے سے ہم امریکہ کی گود میں چلے گئے۔ اب چین کی گود میں نہ چلے جائیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے ’’آقا‘‘ تبدیل کرتے رہیں گے، اپنی کوئی حیثیت نہیں بنائیں گے۔ امریکہ نے ہمیں استعمال کیا مگر چین کبھی بھی ہمارے لئے استعمال نہیں ہو گا۔ دوستی اور غلامی میں فرق ہوتا ہے۔ گفتگو میں فوزیہ شاہد نے بھی شرکت کی۔ پھر ہم لاہور آ گئے۔ یہاں شہر میں داخل ہوتے ہی محسوس ہوا کہ لاہور لاہور اے۔