فوجی عدالتیں۔ وزیر خزانہ کی سیاسی جادو گری
فوجی عدالتوں کی توسیع کے لئے پارلیمنٹ نے آئینی ترمیم کی منظوری دے دی ہے، یہ مسئلہ کم و بیش دو ماہ سے اٹکا ہوا تھا، پیپلز پارٹی انکاری تھی، مولانا فضل الررحمن کے سر پر بھی تہتر کے دستور کے تقاضوں کا خیال حاوی تھا۔ سینٹ کے چیئرمین رضا ربانی صاحب بھول گئے تھے کہ بھٹو صاحب نے اقتدار لیا تو سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طور پر اور انہوںنے اپنے سیاسی مخالفین کو سزائیں دلوانے کے لئے فوجی عدالتیں ہی قائم کی تھیں۔ جو کوئی بھی تہتر کے دستو ر پر فخر کرتا ہے، اسے یاد ہونا چاہئے کہ ادھر دستور متفقہ طور پر منظور ہوا۔ ادھر ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی اور چند ارکان پر مشتمل اپوزیشن کو پارلیمنٹ کے ایوان سے اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا تھا۔ یہی وہ جمہوری دور تھا جس میں دلائی کیمپ کے نام پر دنیا میں پہلا گوانتا نامو کا مشقتی قید خانہ قائم کیا گیا تھا۔ کوئی شخص معراج محمد خان سے دریافت کر لے کہ جمہوریت کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے، حنیف رامے کی گواہی بھی ماشااللہ اس جمہوری نظام پر حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے۔
پیپلز پارٹی کے نخروں پر قابو پانے کے لئے حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ اسحق ڈار کو کیا پاپڑ بیلنے پڑے ہوں گے، اس کی تفصیل کبھی تو باہر آہی جائے گی۔تاہم اسحق ڈار کا مشن انتہائی مشکل تھا، بلکہ نا ممکن تھا۔کیا معلوم پیپلز پارٹی نے کیا کیا رعایتیں لے لی ہوں گی۔ سیاسی مذاکرات کچھ دو کچھ لو کے اصول پر آگے بڑھائے جا سکتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم اور میںنے اسحق ڈار سے یہ سوال براہ راست بھی پوچھا تھا کہ انہوں نے سیاست کاری کی تربیت کہاں سے لی۔ خزانے، مالیات اور معیشت کی گاڑی کو چلانے کے لئے الگ مہارت کی ضرورت ہوتی ہے مگر سیاست کاری کی نزاکتوں پر قابو پانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ انیس سو ستر میں شیخ مجیب، بھٹو اور یحیٰی خان جیسے جغادری سیاستدان اور فوجی جرنیل سیاست کاری میںمات کھا گئے ا ور ملک دو لخت ہو گیا۔مگر اٹھارویں ترمیم چٹکی بجانے میں منظور ہو گئی، کیوں ، صرف اسلئے کہ اس میں ہر کسی کا الو سیدھا ہو گیا تھا۔ یہ ہر صوبے کے لئے امرت دھارا تھی ، اور پاکستان کو جو نقصان ہو گیا ، اس کا لحاظ کسی نے نہ کیا ، نہ ترمیم خدا نخواستہ چار خود مختار مملکتوں کے قیام کا فساد کھڑا کر سکتی ہے، اکہتر میں پاک فوج دو مملکتوں کے قیام پر فساد کی روک تھام نہ کر سکی، آج تو چار مملکتوں کا بکھیڑا در پیش ہو سکتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے اس زہر کو ختم نہ کیا گیا تو فسادی جن کسی بھی وقت بوتل سے باہر نکل کر غرانے لگ سکتا ہے۔
بہرحال اسحق ڈار داد کے مستحق ہیں کہ ایک زہر آلود ماحول میں انہوں نے آگے بڑھنے کا رستہ نکالا۔مجھے اسحق ڈار کی سیاست کاری کو سلام پیش کرنا ہے جنہوںنے صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے دستور میں ترمیم کو ممکن بنایا۔
میں جب تاریخ میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو غلام محمد بھی ماہر اقتصادیات ہی تھے جو گورنر جنرل کے رتبے تک پہنچے اور چودھری محمد علی بھی انہی کی ٹیم کا حصہ رہے تھے جو اس ملک کے وزیر اعظم بنے اور انہوں نے ملک کو پہلا آئین دیا ، یہ الگ بدقسمتی ہے کہ اس دستور کو ایوب خان نے بوٹو ں کی ٹھوکر سے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔آگے بڑھئے تو مجھے غلام اسحق خان نظر آتے ہیں جو وزارت خزانہ کے راستے سیاست میں آئے اور اس ملک کے صدر بنے۔غلام اسحق خان کا اعزاز یہ ہے کہ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے کفیل تھے۔اور یہ مقدس فریضہ ا نہوں نے برسوں تک نبھایا۔میں کم علم صحافی ہوں مگر میں فرض کر سکتا ہوں کہ اس وقت اسحق ڈار پاکستان کی سلامتی کو یقینی بنانے والے اس ایٹمی پروگرام کی ضروریات خاموشی سے پوری کر رہے ہوں گے، میں اورا ٓپ اگر بھارت یا کسی دوسری غیر ملکی طاقت کی غلامی میں جانے سے محفوظ ہیں تو ہمیں اسحق ڈار کو دعائیں دینی چاہیئں۔اور ان کا شکر گزار بھی ہونا چاہئے۔ضرب عضب کا مالی بوجھ بھی اسحق ڈار نے اٹھایا اور ملک کے ایک نحیف مالیاتی ڈھانچے کے اندر سے وسائل پیدا کئے۔جنوبی وزیرستان کے مہاجرین کی آباد کاری کے لئے بھی وہ فوج کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں ۔ اگرچہ جمہوری نظام میں جی ایچ کیو کو ان کے پاس آنا چاہئے مگر اسحق ڈار نے کبھی کسی ا نا کامظاہرہ نہیں کیاا ور اخبارات گواہ ہیں کہ وہ خود چل کر جی ایچ کیو گئے، فوج کے مسائل کو سنا اور ان کا اطمینان بخش حل بھی نکالا۔
ہمارے پڑوس بھارت میں منموہن سنگھ نے بھی وزیر خزانہ کی حیثیت سے نام کمایا اور پھر وہ اپنے ملک کے وزیر اعظم بنے۔اس طرح میں سمجھ سکتا ہوں کہ تین بار وزیر خزانہ کا منصب سنبھالنے والے اور مشرف کے سیف ہائوسوں کا عذاب سہنے والے اسحق ڈار نے بھی وقت کے ساتھ بہت کچھ سیکھا ہے اور وہ اپنے تجربے کو پاکستان کی ترقی و خوش حالی اور فلاح و بہبود کے لئے بروئے کار لا رہے ہیں۔
فوجی عدالتیں تو دوسا ل کے لئے بن گئیں مگر اگلا مرحلہ یہ ہے کہ ماضی کی فوجی عدالتوں سے جن دہشت گردوں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے، ان پر عمل کیا جائے اور آئندہ بھی ان عدالتوں کے فیصلوں پر عمل درا ٓمد کو یقینی بنایا جائے ورنہ یہ ساری ایکسر سائز بے کار جائے گی اور دہشت گردوں کو حوصلہ ملے گا کہ ان پر ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا تو ڈر کاہے کا۔
اسحق ڈار اس مسئلے کا بھی حل نکالیں تاکہ ان کی مساعی ہر اعتبار سے نتیجہ خیز اور بارآور ثابت ہوں۔ اور جادو وہ ہوتا ہے جو سر چڑھ کر بولے۔