تاریخ کا جبر اور نئی صف بندیاں
بند کمروں میں سیاسی سرگرمیاں، نہیں جناب جوڑ توڑ شروع ہو چکا ہے پاکستان کی وارث مسلم لیگ کی نمائندگی حکمران نون لیگ کر رہی ہے جبکہ دو قومی نظریے کے مخالف جمعیت علمائے ہند کے جانشین حضرت مولانا اور گاندھی جی کی نمائندگی خانوادہ خان کی آل اولاد کر رہی ہے۔ تاریخ کا جبر یہ ہے کہ ماضی کے نظریاتی حریف ادنیٰ وقتی مصلحتوں کی وجہ سے سیاسی اتحاد بنانے جا رہے ہیں ان کا ہدف عمران خان اور ان کی نسبتاً نوزائیدہ جماعت تحریک انصاف ہے جس سے وہ ہر قیمت پر پشاور کا تخت چھین لینا چاہتے ہیں۔ حالات کے تیور بتا رہے ہیں کہ الیکشن 2018ءقبل از وقت نومبر، دسمبر2017ءمیں بھی ہو سکتے ہیں نئی صف بندیاں شروع ہو چکی ہیں جبکہ جوڑ توڑ، بند کمروں میں جاری ہے۔
خیبرپختون خواہ کا سیاسی منظر نامہ عجب منظر دکھا رہا ہے، عمل کی دنیا میں نظریات اوراخلاقیات کی بے وقعتی کاپول کھول رہا ہے۔ قائداعظم کے جانشین جناب نواز شریف خیبرپختونخواہ کو فتح کرنے اس کی رہنمائی اور قیادت کا ٹھیکہ حضرتِ فضل الرحمن کو دے چکے ہیں۔ وہ برملا بڑے فخر سے دعوے کرتے ہیں کہ میاں صاحب نے سیاسی انتخابی حکمت عملی وضع کرنا میرے سپرد کر دیا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں انہوں نے کہا کہ اگلے سیاسی معرکے میں جمعیت علمائے اسلام، مسلم لیگ اور اے این پی (سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان کے وارثان) کا اتحاد ہو گا۔ سوال کرنے والے نے کہا اس میں کوئی اور پارٹی بھی شامل ہو گی۔ جواب دیا؛ ”وہ بعد میں دیکھیں گے، ہم تینوں تو ہوں گے“۔
پیارے قارئین کرام! ڈیورنڈ لائن کے ا±س پار شاطر بھارتی حکمت کار، افغان صدر اشرف غنی کو ہمارے مقابل کھڑے کرچکے ہیں ۔ افغان سرزمین کوکھلے بندوں پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے، چند لمحوں کے لئے سیاسی منظر نامے کو بھول جائیں اور سوچیں کہ تزویراتی گہرائی کا ہمارا شاہکار فلسفہ کہاں گیا اور اس پر طرفہ تماشا یہ ہے کہ قائداعظم کے نام لیوا، اسی بھارت کے ساتھ فطری رابطوں کی تاریخ رکھنے والے خدائی خدمت گاروں اور جناب حسین احمد مدنی مرحوم کے مریدوں کے ساتھ حکومت سنبھالنے کے پروگرام کو آخری شکل دے رہے ہیں۔
بظاہر تو یہ سب کچھ تحریک انصاف اور جماعت کی مخلوط حکومت کو روکنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ جو کہ معمولی مقامی سیاسی تنازعہ ہے لیکن اس سارے کھیل کا اصل ہدف پاک چین اقتصادی راہداری (CEPC) ہے، عالمی شطرنج پر کھیلا جانے والا یہ ڈرامہ تمام کھلاڑیوں کے گلے کی پھانس بنتا جا رہا ہے۔حکمت عملی مرتب کرنے والوں کا خیال ہے کہ اس انداز سے وہ پاکستان کی اساسی سیاسی ساخت کو بدل دیں گے اور وہ تبدیلی لے آئیں گے جو پاکستانی معاشرے کے مزاج کویکسر کر موڑ کر اس محور پر لے آئے جس میں بھارت سے دوستی کا دیرینہ خواب تعبیر پا لے۔ دوقومی نظریہ سے لے کر پاکستان کے قومی اداروں کی سلامتی اور بھارت سے متعلق روایتی عسکری دانش کو غیرجانبداری اور عدم مداخلت کا ایسا خوبصورت لباس زیب تن کرا دیا جائے جو پاکستان کا نیا اوردائمی تشخص بن جائے۔
اس مرحلہ پر ایک طرف روایت اور اقدار کی رسی سے بندھے طبقات ہیں جو ہندوستان دوستی کا چارہ ”چرنے“ کے لئے تیار نہیں اور غم وغصے کی بھٹی میں مسلسل انگارے پھانک رہے ہیں۔ دوسری جانب ”قومی اداروں“ کے تحفظات پر کیا گزرے گی؟ ان کا ردعمل یا طرز عمل کیا ہوگا؟ یہ اپنی جگہ ایک اہم سوال ہے۔ مذہبی دھڑوں کے باہمی ٹکرا¶ کا خطرہ سیاسی میدان میں کیا رخ اختیار کرے گا؟ کافی سنگین اثرات کا حامل مسئلہ ہے جس کی گہرائی کئی نئے خطرات کو جنم دے رہی ہے۔ اقتدار کا یہ کھیل اب نظریات کے ایندھن کا ایک نیا آلا¶ بھڑکا رہا ہے۔ سیکولر ازم کے نام پر جلائی جانے والی اس آگ کے شعلے کہاں کہاں گریں گے اور کیا کچھ اس کی نذر ہوگا؟ ہر محب وطن اور دو قومی نظریہ پر ایمان رکھنے والا اس فکر سے پریشان ہے۔
یہاں فیصلہ کن کردار پاکستان کے عوام کا ہے۔ وہ اس سیاسی طلسم ہوشربا میں جاری سحرانگیزیوں اور دھوکہ دہی کی نت نئی چادروں میں سے اصل پہچان کیا کر پائیں گے؟ کیا ان کے نزدیک پاکستان کی سمت کے تعین کے لئے کسی ”ادھار کی عقل“ پر یقین کرنا ممکن ہوگا؟ ماضی کے انتخابات اور ان کے دلفریب نعروں اور ایجنڈوں سے قطع نظر آئندہ انتخاب حقیقتاً تاریخی ہوگا کیونکہ اس کے نتیجے میں پاکستان کے عوام کو ایک نئی تاریخ رقم کرنی ہے۔ ایک طرف حکمران ٹولہ قوم کے اسلاف کی طے کردہ بنیادوں کو اکھاڑ کر ایک نئی بنیاد پر عمارت کی تعمیر کرنا چاہتا ہے اور دوسری جانب ”ل±ٹے پ±ٹے“ عوام ہیں جنہیں مخصوص دیواروں میں چننے کے لئے نئے نئے منصوبے تراشے جارہے ہیں۔ اس اصل امتحان کی شروعات تو ہوچکی ہیں لیکن قوم اس امتحان میں جو بھی فیصلہ دے گی وہ پاکستان کے مستقبل کے لئے فیصلہ کن ہوگا۔
حرف آخر یہ کہ عالمی شاطر ایک ایسی گہری چوٹ لگانے کی بھرپور تیاری میں مرے جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان کا نظریاتی تشخص بھسم کرکے اسے سرمایہ داروں اور مفاد پرستوں کی بیٹھک بنا دیا جائے۔ نظریہ کی یہ ’ون ڈش‘ قوم کو کھلانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ فیصلہ قوم اور اسلاف کی پونجی سنبھالنے والے طبقات نے کرنا ہے کہ وہ اس ’زہرخورانی‘ کے لئے تیار ہیں یا پھر اس پکوان کو حرام قرار دے کر دال روٹی سے لذت کام ودہن کرنی ہے۔ (ختم شد)