چوہدری نثار سے ملاقات ‘ مجید نظامی کو خراج تحسین
گزشتہ روز چوہدری نثار علی خان سے ”پنجاب ہاﺅس“ میں ملاقات ہوئی، خوشگوار ماحول میں گفتگو ہوئی ، جیسا میں اپنے گزشتہ کالموں میں انکے کاموں کی تعریف کرتا رہا ہوں بالکل ویسا ہی حب الوطنی کا جذبہ اُنکے اندر موجود تھا۔ اُن سے بات کی جائے تو حب الوطنی کا جذبہ ٹپک رہا ہوتا ہے، اور ایسے محسوس ہو رہا ہوتا ہے جیسے وہ کسی خاص جذبے کے تحت کام کررہے ہیں۔ وہ دبے لفظوں میں اپنی پارٹی پر تنقید بھی کررہے ہوتے ہیں اور پارٹی و ملک کے حق میں جوبات انہیں بہتر لگے وہ کہتے بھی ہیں اور منواتے بھی ہیں اس کیلئے انہیں کسی کی ناراضگی مول لینا بھی پڑے تو دریغ نہیں کرتے۔ طولانی خطابات میں ملکہ رکھنا ایک الگ بات ہے اور ان میں کسی حکمت، دانائی اورتدبر کا تڑکا قطعی طور پر ایک الگ میدان ہے۔ چوہدری صاحب کی گرمی کلام میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اپنے اس ہتھیار سے اپنے سیاسی حریفوں پر اس طرح پل پڑتے ہیں کہ انہیں دانتوں پسینہ لا کر ہی انکی جان چھوڑتے ہیں۔ چوہدری صاحب اپنی پاک دامنی پر بھی نازاں ہیںکیوں کہ چکری کی راجپوت برادری اور تین نسلوں کے فوجی گھرانے کے فرد چوہدری نثارعلی خان ہمیشہ ایمانداری اور حب الوطنی سے کام کرنے کو اپنا شیوہ سمجھتے ہیں۔ وہ مسلم لیگ ن اور فوج کے درمیان ایک پُل کی حیثیت سے بھی کام کرتے ہیں۔اُنکی استقامت اور صبر وقناعت اس لحاظ سے قابل تعریف ہے کہ دوطاقتوں کے درمیان ڈور بنے رہنے کے باوجود انہوں نے خود کبھی طاقت بننے کی کوشش نہیں کی۔
چوہدری نثار سے ملاقات کا میرا اصل مقصد یہ تھا کہ مجھ سمیت کروڑوں پاکستانی انہیں ایک محب وطن، ایمانداراور دیانتداروزیر سمجھتے ہیں، اس لیے انہیں بھی کئی ایسی درپیش مشکلات اور مجبوریوں سے گزرنا پڑ رہا ہے جو ان کی ”سیدھی “ راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ ملاقات کے آغاز میں انہوں نے ”نوائے وقت “ کی تعریف کی اور اسکی پوری ٹیم کو خراج تحسین پیش کیا، اور سب سے اہم یہ کہ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ مجید نظامی (مرحوم) صحافت کی دنیا میں ہمیشہ انکے آئیڈیل رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مجید نظامی اپنی ذات میں ایک انجمن اور ادارہ ساز شخصیت تھے، انکی شخصیت ان لوگوں کیلئے ہمت اور حوصلے کا باعث ہے جو جبر و استحصال کی قوتوں کے آگے جھکنے کی بجائے انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ آپ نے آزادی صحافت پر کبھی آنچ نہیں آنے دی۔ عالم اسلام میں بھی ان سے بڑا کوئی نظریاتی ایڈیٹر شاید ہی موجود ہو۔ آپ نے آئین و جمہوریت کی سر بلندی کیلئے تمام مشکلات کا بڑی بہادری سے مقابلہ کیا ہے۔ انکی شخصیت ہمارے لئے قابل فخر اور قابل تقلید ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ہمارے وزیر داخلہ بابائے صحافت کے حوالے سے کس قدر خاص جذبات رکھتے ہیں۔ انہوں نے کشمیر کاز کے حوالے سے مجید نظامی صاحب کی خدمات کو سراہا اور کہا کہ مجید نظامی جانتے تھے کہ ازلی دشمن بھارت کے قبضے سے کشمیر کیسے آزاد کروایا جا سکتا ہے۔ کشمیر کو قائداعظمؒ نے ہماری شہ رگ قرار دیا تھا اور اس بات کو ثابت کرنے کیلئے جتنا کام مجید نظامی نے کیا اُسکی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔ اُنکی ذات ایک آئینہ تھی جس میں تحریک پاکستان کے ان لاکھوں گمنام ہیروز کی آرزوﺅں اور امنگوں کا عکس جھلکتا تھا جنہوں نے کلمہ طیبہ کی بنیاد پر اس مملکت کو معرض وجود میں لانے کیلئے دن رات ایک کر دیا تھا۔ آپ کے قلم نے پاکستانی قوم بالخصوص اہل قلم کو سچ لکھنے اور ظلم کو للکارنے کا حوصلہ بخشا۔ پاکستان قائداعظمؒ کی امانت ہے اور ڈاکٹر مجید نظامی اس امانت کے سب سے بڑے امین‘ سب سے بڑے پاسدار رہے۔ ڈاکٹر مجید نظامی کی قومی ملی و صحافتی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔
چوہدری نثار نے مزید یہ بھی کہا کہ میری صبح کا آغاز ہی نوائے وقت سے ہوتا ہے۔ کیونکہ بہترین ادارت اور خبروں سے ہمیشہ استفادہ کیا جاتا رہا ہے۔ میں آگے چلنے سے پہلے وزارت داخلہ کے اچھے اقدامات کا احاطہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں جو میری نظر میں واقعی قابل تعریف ہیں اورصحافت میں اپنے مخالفین کے اچھے کام کی تعریف کرنا ایک عبادت سمجھا جا تاہے۔
چوہدری نثار علی خان نواز شریف کابینہ کے واحد رکن ہیں جو اپوزیشن بالخصوص پیپلز پارٹی کیلئے ’دردسر‘ بنے رہتے ہیں اس لیے نثار صاحب بھی اپوزیشن کی طرف سے چڑھایا ہوا ادھار اتارنے میں دیر نہیں لگاتے ہیں پیپلز پارٹی والوں کی توان سے بنتی ہی نہیں یا یہ کہیے کہ انکی پیپلز پارٹی سے نہیں بنتی ،دونوں باتیں درست ہیں اسکی سب سے بڑی وجہ کرپشن کے بارے میں ”زیرو ٹالرنس “ ہے ، انکے اس طرز عمل کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں کی ” توپوں “کا رخ انکی طرف رہتاہے۔
وزارت داخلہ کے موجودہ دور میں داخلی امور سے متعلق جاری کردہ ابتدائی اصلاحات قابل تعریف ہیں۔ دہشتگردی کیخلاف اقدامات کے نام پر دارالحکومت کی ہر سڑک کا بغداد میں امریکی سفارت خانے کا منظر پیش کرنا قومی تضحیک ہی تھا اور وسائل کا زیاں بھی۔نہ صرف سفر درد سر بن چکا تھا بلکہ ان ناکوں نے شہریوں کا ناک میں دم کیا ہوا تھا۔ بعض جگہیں رشوت بٹورنے کے پلیٹ فارم بن چکی ہیں۔ ٹول پلازوں کا خاتمہ بھی احسن قدم ہے۔ شہر میں آتے ہوئے جیل نما اور بے ڈھب چوکھٹوں میں سے گزرنے کا عمل ویسے بھی ذ ہنی عدم تحفظ کا باعث بن جاتا تھا۔ اور پھر کسی کو یہ معلوم نہیں ہے کہ روزانہ لاکھوں روپے کی آمدن کدھر جاتی ہے؟ ہر گاڑی سے بیس بیس روپے کس قانون کے تحت وصول کیے جاتے ہیں؟ اور ادا نہ کرنے پر گاڑیوں کو روکنے کی طاقت ان ملازمین کو کس نے دی؟ اسلحے کے لائسنس کے اجراءاور اسلحے کی نمائش سے متعلق پالیسی کو منظم انداز سے لاگو کرنے کی ضرورت سے بھی کسی کو انکار نہیں مگر اس شعبے میں اسلحہ رکھنے کی ضرورت کا تعین کرنا بھی ضروری ہے۔
موجودہ وزارت داخلہ نے این جی اوز کی رجسٹریشن کے حوالے سے خاصے اقدامات کیے ہیں انہوں نے جو 100 سے زائد انٹرنیشنل این جی اوز پاکستان میں لائسنس کے بغیر کام کر رہی تھیں، ان کو ریگولرائز کرنے کیلئے اقدامات کئے ۔ انہوں نے اسلحہ لائسنسوں، بلٹ پروف گاڑیوں اور سیکورٹی ایجنسیوں کے حوالے سے نمایاں اقدامات کئے ہیں۔
میں نے ملاقات میں جب اُن سے یہ پوچھا کہ آج نیشنل ایکشن پلان پر تنقید کیوں ہوتی ہے جب کہ ملک میں نسبتاََ دہشت گردی بھی کم ہوئی ہے تو انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر تنقید دشمنوں کو مضبوط بنانے کے مترادف ہے، ہمیں قومی اہمیت کے معاملات پر الزام تراشی اور پوائنٹ اسکورنگ سے گریز کرنا چاہئے، دہشتگردوں کیخلاف بلا تفریق کارروائی کی جا رہی ہے۔ ماضی میں پاکستانی قوم کرپٹ مافیا کے رحم و کرم پر تھی، ہم قوم کو بدعنوان عناصر سے نجات دلانے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں، اگر کسی کو حکومت بالخصوص وزارت داخلہ کی کارکردگی نظر نہیں آئی تو ان پر افسوس ہے۔ دہشتگردی کیخلاف ضرب عضب آپریشن پہلے شروع کیا گیا یہ نیشنل ایکشن پلان کا حصہ نہیں اور اس پر عمل درآمد سول حکومت کا کام ہے، جن لوگوں نے نیشنل ایکشن پلان پڑھا نہیں وہ اس پر بیانات دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان سمز پہلے پاکستان میں رومنگ پر چل رہی تھیں، ہم نے یہ سلسلہ بند کر دیا تاہم افغان سرحد کے قریب فاٹا کے بعض علاقوں میں افغان سمز کام کرتی ہیں۔ اس حوالے سے پی ٹی اے سے رابطے میں ہیں اور افغان حکومت سے بھی رابطہ کیا جائیگا۔ سیکورٹی کے مسائل کے حل کیلئے سائنسی بنیادوں پر اقدامات کر رہے ہیں۔ دہشتگرد میڈیا کی آواز دبانا چاہتے ہیں، ہمیں متحد ہو کر ان کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ (جاری)
سوشل میڈیا پر ہونیوالی بے حرمتی کے حوالے سے جب میں نے اُن سے دریافت کیا تو وہ خاصے پریشان اور قدرے بے بس دکھائی دیے۔ انہوںنے کہا کہ ناموس رسالت ہمارے ایمان کا حصہ ہے،یہ توہین رسالت ہی نہیں توہین انسانیت بھی ہے،پوری قوم یکجا ہے کہ گھناﺅنے جرم کا بار بار ارتکاب کرنیوالوں کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔انہوں نے کہا گستاخانہ مواد سوشل میڈیا پر دینے والوں کیخلاف آخری حد تک جائینگے،امریکی سفارتخانے سے رجوع کیا گیا ہے اورمدد مانگی گئی ہے،تعاون نہ کیا گیا تو کوئی فرق نہیں پڑتا سخت اقدامات کئے جائینگے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر کو فیس بک،وائبر اور دیگر سائٹس سے روزانہ کی بنیاد پر رابطہ کرنے کا کہا ہے،غیرملکی کمپنیوں کے خلاف تمام مسلمانوں کو مشترکہ لائحہ عمل اپنانا ہوگا،بطور وزیرداخلہ یہ ذمہ داری ہے کہ یہ الزام کسی بے گناہ کے ذمہ نہ لگے۔
انہوں نے کہا ماضی میں پاسپورٹ بنوانے کےلئے بھاری رشوت دینا پڑتی تھی، ہم نے بدعنوانی کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات کئے ہیں، ہم نے ارجنٹ پاسپورٹ کی مدٍت چار دن کر دی ہے جبکہ عام پاسپورٹ 10 دن میں فراہم کیا جا رہا ہے۔ ہم وزارت داخلہ کے تمام اداروں بالخصوص سیکورٹی اداروں میں گڈ گورننس اور بہتری لانے کی کوشش کر رہے ہیں، ہمارا مقصد شہریوں کو بہتر سہولیات فراہم کرنا ہے۔ ہم حالت جنگ میں ہیں، جنگیں صرف بندوقوں اور گولیوں سے نہیں لڑی جاتیں، اس کا اہم پہلو نفسیاتی جنگ بھی ہوتا ہے، ہم مسلح افواج، انٹیلی جنس اداروں اور پولیس کی کاوشوں سے مسلح جنگ جیت رہے ہیں، ہم یہ کامیابی سیاسی اتفاق رائے اور فوجی و سیاسی قیادت کے درمیان ہم آہنگی کی وجہ سے جیت رہے ہیں، ہمیں قومی اہمیت کے معاملات پر الزام تراشی اور پوائنٹ اسکورنگ سے گریز کرنا چاہئے، اگر ہم نے خود خوف و ہراس پھیلانا ہے تو ہمیں دشمنوں کی کیا ضرورت ہے۔
چائے کا سپ لیتے ہوئے انہوں نے فکری انداز میں بتایا کہ وطن عزیز میں جو لوگ بغیر دستاویزات کے رہ رہے تھے ہم انہیں گرفتار کرکے قانون کے مطابق کارروائی کررہے ہیں اور ہمارے سیکیورٹی ادارے اس حوالے سے نادرہ کی مدد سے ایسا ڈیٹا بیس قائم کررہے ہیں جو غیر ریاستی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے حوالے سے، ان کی سرگرمیوں کے حوالے سے آن لائن کام کرے۔ یعنی ہم سکیورٹی کے حوالے سے جدید سائنس کی مدد بھی لے رہے ہیں اور ماہرین کی خدمات بھی لے رہیں اس حوالے سے ہم نے نادرہ میں موجود خامیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ نادرہ کے ڈیٹا کو ملک کی مجموعی سکیورٹی کیلئے کارآمد بنا سکیں اور ماضی میں جن لوگوں نے اس ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے جعلی شناختی کارڈ کا اجراءکیا انہیں بھی عبرت کا نشان بنا رہے ہیں تاکہ آئندہ کوئی ملک کے ساتھ کھلواڑ کرنے کا سوچ بھی نہ سکے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے منشیات کے خلاف ملک بھر میں مہم چلائی ہے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ منشیات فروش ملک میں امن و امان کے نقائص کے ذمہ داران ہیںاور دہشت گردوں کے بڑے سپورٹراور سہولت کار سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے ان کیخلاف بلاامتیاز آپریشن شروع کیا ہے اور سکیورٹی اداروں کو اس حوالے سے احکامات جاری کیے ہیں کہ ان عوامل کی سرکوبی کی جائے جومعاشرے میں خرابی کا باعث بن رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب ایسا نہیں ہوگا کہ دشمن ہمارے ملک میں رہے، پاسپورٹ بھی ہمارا استعمال کرے، شناختی کارڈ بھی ہمارا ہی استعمال کرے اور نقصان بھی ہمیں ہی پہنچائے، ماضی کی حکومت نے اس حوالے سے بہت ” کام “ کیا۔ مگر اب ایسا نہیں ہوگا۔ ہم نے ملک بھر میں موجود دنیا بھر کی ایجنسیوں کیلئے کام کرنےوالے ایجنٹوں کو نہ صرف ملک بدر کیا بلکہ انہیں قانون کے کٹہرے میں بھی لائے۔ اور انہیں دستاویزات کے بغیر پاکستان میں داخلے کو بھی ناممکن بنادیا گیا۔ اور اب کوئی حسین حقانی اس طرح کا کام نہیں کرپار ہا جس طرح طرح وہ ماضی میں کرتا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میری پیپلز پارٹی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں، میں تو صرف اس کے دور حکومت میں ہوئے وطن مخالف اقدامات اور انکی کرپشن سے نالاں رہتا ہوں ورنہ محترمہ کے ساتھ ملکی مفاد میں ہم نے بہت سے کام اکٹھے کیے ہیں، محترمہ وژنری تھیں جبکہ موجودہ قیادت کے حوالے سے مجھے بتانے کی ضرورت نہیں عوام اچھی طرح جانتے ہیں....!
انہوں نے کہاکہ اُن کی اورپیپلز پارٹی کی لڑائی کی بنیاد ہی پیپلز پارٹی کی”کرپشن“ ہے۔ کیوں کہ جب میں کرپشن کے حوالے سے بات کرتا ہوں تو اکثر اوقات پیپلز پارٹی کو تکلیف پہنچتی ہے۔ چوہدری نثار کا یہ کہنا ہے کہ اس نظام کا حصہ رہتے ہوئے جتنی کوشش ہو سکتی ہے وہ کررہا ہوں کہ اس معاشرے سے کرپشن کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ اس حوالے سے میں ذاتی طور پر کرپشن کیخلاف اپنے اداروں میں زیرو ٹالرینس کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں ۔
وزیر اعظم سے اختلافات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اختلافا ت کوئی نہیں ہیں مگر اختلاف رائے ہوتا رہتا ہے۔ وہ میری ذمہ داری ہے کہ میں پارٹی صدر کو تمام واقعات و حقائق سے آگاہ رکھوں اور یہ قرض میں ملکی مفاد کی خاطر ادا کرتا رہوں گا۔ اس کیلئے چاہے پورے ملک کی جماعتیں میرے خلاف ہو جائیں مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور میں یہاں یہ بھی کہنا مناسب سمجھتا ہوں کہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ مسلم لیگ سے خفاءرہتے ہیں اس لیے وہ اس جماعت کو چھوڑ دینگے۔ ایسا میں سوچ بھی نہیں سکتا کیوں کہ میں نے جس دن مسلم لیگ کو جوائن کیا تھا اُسی دن تہیہ کیا تھا کہ میری شروعات اور اختتام اسی پارٹی کے ساتھ ہی ہوگا۔ اور اختلاف رائے ہی اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ میں اپنے ادارے کو بغیر کسی مداخلت کے ٹھیک چلارہاہوں اس پر مجھے وزیر اعظم کا مکمل اعتماد حاصل ہے۔میں اس حوالے سے اپنی رائے ، تجاویزاور تحفظات بھی پیش کرتا رہتا ہوں جسے وزیر اعظم خندہ پیشانی سے سنتے آئے ہیں۔
وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے حوالے سے میں نے ان سے پوچھا کہ اکثر اوقات ایسی خبریں سننے کو مل رہی ہوتی ہیں کہ آپ کو وزیر اعظم بنایا جا رہا ہے تو انہوں نے برملا جواب دیا کہ مجھے زندگی میں وہ ذمہ داری قبول کرنے کا کبھی شوق نہیں رہا ، جس کا میں کبھی شائق نہیں رہا۔ میں عہدوں سے اپنی پہچان بنانے کا عادی نہیں ہوں بلکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنی کارکردگی سے اپنا نام اور اپنی پہچان بنانی چاہیے۔ اور میں محنت سے اوپر جانے کا عادی ہوں اس لیے میرے لیے یہ عہدے ، وزارت عظمیٰ اور دیگر عہدے کوئی معنی نہیں رکھتیں مجھے جمہوریت پر مکمل یقین ہے، میں اسکے احیاءکیلئے حتی المقدور کوشش کرتا رہتا ہوں۔
ملاقات میں بہت سی آف ریکارڈ باتیں بھی ہوئیں جنہیں شائع کرنا مناسب نہیں مگر انکے باتوں کا میں گرویدہ ہوگیا کیوں کہ وہ جس کام ملکی مفاد کی خاطر کرنے کی ٹھان لیتے ہیں وہ کرکے دکھاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے نواز شریف کی مفاہمت کی وجہ سے آسان ہدف چوہدری نثار علی خان کو بنانے کی کوشش کی اوربلاول سمیت پوری جماعت جسے عوام کی فلاح کیلئے ”اپوزیشن “ کرنی چاہیے تھی وہ چوہدری نثار کے پیچھے لگ گئی، اور انہیں گرانے کیلئے کام کرتی رہی۔ لیکن وہ ڈٹے رہے کیونکہ وہ ایک سخت گیر اور بد عنوانی کے شائبے سے پاک شہرت کے حامل عوامی سیاستدان ہیں جن کو اپنی عزت، اپنی پارٹی کی نیک نامی اور اس ملک کی فلاح عزیز ہے۔ مگر اسکے باوجود ان کا اصل امتحان عملی کارکردگی دکھانے اور ان اقدامات کو حقیقت کا روپ دینے میں پنہاں ہے۔میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ چوہدری نثار کو کرپشن کیخلاف جنگ میں اپنی ہی پارٹی کی وہ حمایت حاصل نہیں ہے جو ہونی چاہیے۔ ایسا ہوتا تو شرجیل میمن، عاصم حسین اور ایان علی جیسے کیسز اپنے منطقی انجام کو پہنچتے۔ امید اب بھی کی جانی چاہیے، کہ چوہدری نثار اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے ۔