بھٹو کی برسی‘ بلاول .... اور مجید نظامی کا مردِ حر
جب انسان محبت اور نفرتوں کی انتہاﺅں پر جا کھڑا ہوتا ہے تو وہاں سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے راستے کی شروعات ہوتی ہے‘ محبت حدود سے تجاوز کر جائے تو بھی انسان ایکو سسٹم (ماحولیاتی نظام) کے تمام تر فیکٹرز فراموش کر دیتا ہے اور نفرت کی سرحدو ں کے پار کرنے کی صورت میں معاشرتی اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیتا۔ ہم یہ بھول بیٹھتے ہیں کہ صلاحیتوں‘ شرافتوں اور ذہانتوں کے باوجود ہم علیم ہیں نہ معصوم۔ رب کعبہ علیم ہے‘ معصوم ذات صرف انبیاءکی ہے جبکہ صحابہ کرام اور اولیائے کرام اللہ رب العزت کی رہنما ئی کو مقدم جانتے ہیں اور قرآن وسنت کے اصولوں کو اپناتے ہوئے اعلیٰ روایات کے امین ہوتے ہیں اور اچھی سیاسی قیادت حرص وہوس سے کنی کتراتی ہے!
آج کے نوجوان کو میٹرک انٹر میڈیٹ اور ڈگری کلاسز میں مطالعہ پاکستان کے مضمون سے صرف امتحانات پاس کرنے کےلئے معروضی جوابات کی تلاش ہوتی ہے یا پھر نظریہ پاکستان کا ایک سوال رٹ لیتے ہیں۔ آج انکے سامنے جلوہ افروز سیاست بھی کسی نظریاتی شاہراہ پر گامزن نہیں۔ سیاسی صورتحال اور سیاسی کشمکش کی روح ہی تبدیل ہوچکی ہے۔ دور کہاں جانا‘ پچھلے الیکشن میں میں نے اپنی ڈاکٹر بیٹی اور پبلک سیکٹر یونیورسٹی کی لیکچرار بیٹی سے پوچھا کہ دائیں بازو اور بائیں بازو کی سیاست میں کیا فرق ہے؟ جواب زیرو تھا۔ ان کا جواب محض اتنا تھا کہ چونکہ فلاں بھی کرپٹ اور فلاں بھی بدعنوان چنانچہ ہم نے فلاں کو ووٹ دینا ہے۔ چلیں وقتی طور پر اسے انسداد بدعنوانی کی کوشش قرار دے دیتے ہیں لیکن نوجوان یہ بھی تو سمجھیں کہ آمریت اور جمہوریت میں فرق کیا اور کیوں ہوتا ہے؟
قارئین کرام! یقین جانیے متذکرہ ووٹرز کو یہ بھی معلوم نہ تھا۔ قیادت ہی کا نہیں یہاں تو سیاسی فہم وفراست کا بھی قحط الرجال ہے۔ یونیورسٹیوں سے پریکٹیکل زندگیوں تک بانجھ تعلیم ہے۔ تعلیم کے ساتھ اگر تربیت نہیں تو کچھ بھی نہیں جیسے علم کے ساتھ حکمت نہیں۔ پس یہ ثابت ہوا کہ نوجوان نسل لوٹا ازم اور فلور کراسنگ کے سائیڈ افیکٹ سے بھی ناآشنا ہے اور آمر ہمیشہ اس سے استفادہ کرکے جمہوری بھٹوز کو پھانسی پر چڑھاتے ہیں اور شریفوں کو جلاوطن کرتے ہیں۔
پاکستان کے پہلے آمر جرنیل صدر ایوب نے فاطمہ جناح کو جمہوری طاقت سے نہیں مخصوص قوت سے شکست دے کر آمریت کی داغ بیل ڈالی۔ واضح رہے کہ ذوالفقارعلی بھٹو ایوبی دور میں وزیر خارجہ رہے۔ بعدازاں آمریت کے سپہ سالار کیخلاف جمہوری سپہ سالاری کاآغاز کیا لیکن یہاں مقصود ہے لوٹا ازم کے حوالے سے وہ ایک بات جو صدر جنرل ایوب خان نے اپنی پہلی تقریر میں کی: ”2باتیں ایسی ہیں جنہیں ایک باخبر آدمی مشکل ہی سے کرسکتا ہے۔ ایک مذہب کی تبدیلی اور دوسری اپنی پارٹی سے وفاداری کی تبدیلی لیکن اسمبلیوں میں ہمارے نام نہاد نمائندے اپنی وفاداریاں بدلتے رہے ہیں اور انکے ضمیر نے اس پر ذرہ برابر بھی ملامت نہ کی اور اس طرح ملک میں اسلام کے مقدس نام پر بھی جمہوریت کو چلایا جاتا رہا۔“ پس یہ ثابت ہوا آمریت کی تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے‘ ایک ہاتھ آمر کا اور دوسرا موقع پرست بے وفا سیاستدانوں کا۔آگے چلتے ہیں‘جنرل یحییٰ خان کی بات کبھی پھر سہی، تیسرے آمر صدر جنرل ضیاءالحق نے ذوالفقارعلی بھٹو کا تختہ الٹنے پر اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ ”آج صبح میں چیف جسٹس آف پاکستان جناب یعقوب علی سے بھی ملا۔ میں انکے مشورے اور قانونی رہنمائی کےلئے ازحد ممنون ہوں۔ میں یہ بالکل واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ نہ میرے کوئی سیاسی عزائم ہیں نہ ہی فوج اپنے سپاہیانہ پیشے سے اکھڑنا چاہتی ہے۔“ یہی ستم ہے کہ آمر آئین اور قانون کو بھی دسترس اور اعتماد میں لے لیتے ہیں جو جنرل ضیاءالحق نے پہلی تقریر میں ”چیف جسٹس کی قانونی رہنمائی“ کی بات کی۔ یہ نظریہ ضرورت ہی تو ”جوڈیشل قتل“ وزیراعظم کا قتل‘ وفا کا قتل کہنے پر مجبور ہیں جو 4اپریل 1979ءمیں ہوا۔ اس قتل کے پیچھے دو ہاتھ تھے جو تالی بنے‘ ایک آمر کا ہاتھ اور وفاداریاں تبدیل کرنے والا ہاتھ۔ جب ایسے ہاتھ ملتے ہیں تو کوئی نہیں دیکھتا کہ پاکستان کو ایٹمی بنیاد فراہم کرنے والا اور ناقابل تسخیر بنانے والا کیا تھا۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کا قیام بھی فراموش ہو جاتا۔ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینا بھی لوگ فراموش کر دیتے ہیں۔ اسلامی ممالک کی قیادت کا اعزاز رکھنا بھی پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ اپنے دور کے موازنے کیمطابق کمال کر دینا اور تعلیم وتربیت کیلئے ایشیاءمیں پہلی اوپن یونیورسٹی متعارف کرانا حالیہ (علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی)‘ زکریا یونیورسٹی ملتان سمیت کئی دیگر بڑے تعلیمی ادارے ایک فہم و فراست کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ بھارت سے جنگی قیدیوں کو چھڑوا لانا معرکہ نہیں تو کیا تھا؟ وزیر خارجہ سے وزیراعظم پاکستان تک بھٹو سراپا ذہانت اور جمہوری قد کاٹھ تھا۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے دبنگ اور اقوام متحدہ میں نظریاتی پختگی کا ثبوت دے کر اقوام عالم میں لوہا منوانا‘ اس وقت کی عالمی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا اور اسلامی پلیٹ فارم بنانا ایک دوام کی علامت تھا جسے عالمی اسٹیبلشمنٹ نے ”بھٹو چیلنج“ کے طور پرلیا اور اسکے قلع قمع میں اپناحصہ ڈالا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ نفرت کرنے والوں نے آج بھی اندرون اور بیرون ملک بھٹو کو معاف نہیں کیا۔ الزام لگانے والے ذرا یہ سوچیں کہ اقتدار کی منتقلی کس کے ہاتھ میں تھی اور کس نے ٹرانسفر کرنا تھا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کی علیحدگی کی کہانی ہی اور ہے۔ اگر کوئی سمجھے! ہاں آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو اگر بھٹو والے ہیں تو پہلے تحقیق کرےں کہ جانی دشمن بھی بھٹو پر کوئی سرے محل کا مقدمہ نہ لاسکے اور نہ بین الاقوامی دشمن ہی کوئی پانامہ لیکس منظرعام پر لاسکے۔ جناب زرداری صاحب! آپ لاہور ڈیرہ جماکر کس کارکن کے گھر گئے؟ ذکاءاشرف کی کیا سیاسی اور عوامی حیثیت ہے اسکے گھر جانے کا فائدہ؟ بھٹو اور بینظیربھٹو کیلئے لاڑکانہ ہی نہیں لاہور بھی پارٹی قلعہ تھا۔ یہاں سے دونوں الیکشن جیت کر دکھائے اور آپ کو آج تمام تر کوششوں کے باوجود لاہور ڈویژن کیلئے صدر نہیں مل رہا اور جیتنے کیلئے لاہور کے 13حلقوں میں تو کیا پورے وسطی پنجاب میں ضلع ہی نہیں مل رہا اور بلاول جو بےنظیربھٹو کی اپنے کارکنان کیلئے تصویر ہے اسے سیاسی راستہ نہیں مل رہا حالانکہ بلاول کے نانا اور اسکی ماں کے کارکنان اسے لیڈر مان چکے ہیں جو ابھی تک زرداری کو سیانا اور مردحُر تو مانتے ہیں لیکن عوامی لیڈر نہیں۔ بلاول کو اگر بلاول بھٹو بننا ہے تو جھونپڑی اور کچے گھر والوں کے دل میں رہنا پڑےگا۔ اگر بلاول ہاﺅسز کراچی ‘ لاہور وملتان میں رہنا ہے تو محض بلاول زرداری بن کر ان اونچی دیواروں ہی میں بکھر جائیں گے۔ اگر بھٹو کی فلاسفی اپناتے ہیں تو ملک کے طول وعرض میں نکھر جائیں گے۔
قارئین باتمکین!تاریخ کے اوراق سیاست اور صحافت کے دو کردار وں کو اپنے اپنے نظریات کے ساتھ ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔ سیاست اور صحافت میں آخر تک وفا پر رہنا ہی کمال ہے تو دایاں اور بایاں بازو سیاسی وصحافتی میدانوں میں نظر ہی نہیں آتا بلکہ اس پر بات ہی نہیں ہوتی۔ پچھلے دنوں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کی ایک کانفرنس کے کلوزنگ سیشن میں میں نے عرض کیا تھا جہاں تک انسانی حقوق کا معاملہ ہوتا ہے وہاں دایاں دھوتا ہے بائیں اور بایاں دھوتا ہے دائیں کو لیکن یہ تو وفا کی باتیں ہیں۔ آصف زرداری صاحب آپکو امام صحافت نے مرد حُر کہا تھا ” تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو“ اور مشرف آمریت کیخلاف جیل کاٹنے پر کہا تھا‘ زمانہ بہادروں اور اصول پسندوں کا ساتھ دیتا ہے۔ اسی لئے بھٹو ایک ”کرشمہ “ تھا۔ اب پی پی پی کا بھٹو کون بنے گا؟ اصل بھٹو‘ عوام اس سین کے عملی نمونے کے منتظر ہیں۔ آج صحافت بھی درباری نہ بنے جمہوریت سیاست کی نگہبانی اور پشت بانی کرے جیسے مجید نظامی ایوبی جمہوریت کےخلاف خم ٹھونک کر کھڑے ہوئے تھے۔ آج غور کریں تو بااصول مجیدنظامی نے قائداعظم کے بعد محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر خان کی بڑی قدر کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان آج بھی بھٹو کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ واہ! ان تینوں سے یاد آیا اپریل کا پہلا ہفتہ ان تینوں کی کسی نہ کسی طرح کی تاریخ بن گیا۔ ڈاکٹر قدیر یکم اپریل 1936کو پیدا ہوئے۔ مجیدنظامی کی تاریخ پیدائش آج ہے یعنی 3اپریل 1928ئ‘ ہاں اور بھٹو کی سن پیدائش بھی 5 جنوری 1928ءہے۔ 4اپریل بھٹو کا یوم وفات ایک بہت بڑا سبق کہ عظیم قیادت یوں نہیں کھونا چاہیے۔
بلاول کو اگر بھٹو بننا ہے تو عظیم ذوالفقارعلی بھٹو سمیت نظریاتی وفا کی تصویروں اور تعبیروں کا تاریخی مطالعہ کریں۔ یہاں سے انسانی حقوق اور جمہوری وسیاسی تعلیم وتربیت ملے گی۔