پیر‘ 5 رجب المرجب‘ 1438 ھ‘ 3 اپریل 2017ئ
عسکری ادارے کبھی ایک گھوڑے پر شرط نہیں لگاتے‘ پی پی سے بھی رابطے ہیں: شیخ رشید
سب سے پہلے تو شیخ جی وضاحت کریں کہ انہوں نے گھوڑا کس کو کہا ہے۔ اتنی بڑی بات خان صاحب تو کسی صورت ہضم نہیں کریں گے۔ عوام کو بھی لگ رہا ہے کہ شیخ جی آج کل کچھ زیادہ ہی بولنے لگے ہیں‘ جسے شیخیاں بگھارنا بھی کہتے ہیں۔ ان کے ایسے ہی بیانات ان کی سیاسی آوارگی کی عکاسی کر رہے ہیں۔ کہاں کہ شیخ جی بولنے سے قبل بھی خان صاحب کی طرف دیکھتے اور پھر ارشاد فرماتے کہاں یہ حال کہ انہیں بھی اقتدار کی ریس میں شامل وہ گھوڑا بنا دیا جو جیتنے کے لئے اپنی صلاحیت نہیں دوسروں کے لطف و کرم کا محتاج ہوتا ہے۔اب کہیں شیخ جی نے بھی اپنا گھوڑا تو نہیں بدل دیا۔
ن لیگ ہو یا پی پی ان کے بعد اب تحریک انصاف کو بھی عسکری اداروں کی حمایت سے ہی ایوان تک پہنچنے کا جوشوق چڑھاہے۔ شیخ جی نے اس کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔اب کوئی اور سیاسی جماعت بچی نہیں جسے ہم کہہ سکیں کہ وہ آزاد ہے۔ دینی جماعتیں ویسے ہی ادارں کی معاونت سے چلتی ہیں ان کا ذکر ہی عبث ہے۔ اب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی والوں کو اپنی اپنی پڑ گئی ہو گی کہ اداروں نے اگر ان کی بجائے اس بار تحریک انصاف کو گود لے لیا تو ان کا کیا بنے گا‘ اس طرح تو اگلی باری اس کی ہو سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭
دہشت گردی کے خاتمے سے پولیو کے خاتمے میں مدد ملے گی: صدر ممنون حسین
اسے کہتے ہیں ایک تیر سے دو شکار کرنا۔ محسوس ہوتا ہے صدر مملکت کی سرکاری مصروفیات میں اضافہ نے ان کی ذہنی صلاحیتوں کو جلا بخشی ہے۔ وہ آج کل جس طرح سرکاری و غیر سرکاری تقریبات میں شمع محفل بنے ہوتے ہیں‘ تقاریر کرتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ صدر مملکت کا فعال ہونا کتنا اہم ہوتا ہے۔ مگر کوئی صدر لغاری جیسا بھی فعال نہ ہو جو اپنی ہی حکومت کی لُٹیا ڈبو دے۔ ہمارے ہاں ویسے بھی سابق صدر فضل الٰہی جیسوں کو ہی اس عہدے کے لئے آئیڈیل تصور کیا جاتا ہے۔ جو
”کچھ بولئے حضور یہ لب کھولئے حضور“
کے اصرار کے باوجود کچھ نہیں بولتے تھے۔ شاید وہ پہلے تولو پھر بولو کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے تھے۔
اب صدر ممنون حسین نے جس طرح دریا کو کوزے میں سمیٹا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بولنے اور تولنے کے رموز و کنایہ سے بخوبی آگاہ ہیں۔ خدا کرے ان کی یہ خواہش جو ہر پاکستانی کی بھی خواہش ہے۔ جلد اور ضرور پوری ہو۔ ملک کو دونوں دشمنوں یعنی دہشت گردوں اور پولیو سے نجات ملے۔ ایک صحت مند‘ خوشحال اور پرامن پاکستان ہم سب کو نصیب ہو....
پنجاب میں موقع ملا تو سندھ کی طرح ترقی دلائیں گے: منظور وسان
خاکم بدہن اگر ایسا ہو گیا تو پھر پنجاب کا بھی وہی سندھ والا حال ہو گا۔ گلی کوچوں میں کچرے کے ڈھیر ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر گندے گٹر والے پانی کے دریا میں تیرتے ہوئے اہل پنجاب کو کہیں ایک بار پھر سوہنی کے کچے گھڑے پر تیرنے کی سزا ڈوبنے کی صورت میں نہ ملے۔ منظور وسان اور پی پی پی کی اعلیٰ قیادت پنجاب کو سندھ کی طرح ترقی یافتہ بنانے سے محفوظ ہی رکھیں تو بہتر ہے۔فی الحال پنجابی کسی ایسی ترقی سے بہرور ہونا نہیں چاہتے جس کا انجام تنزلی ہو۔
سندھ ہی کیا پورا پاکستان آپ کی جماعت کے ہاتھوں ہونے والی بے مثال ترقی کا گواہ ہے۔ سوائے کرپشن کے شاید ہی کوئی اور ایسا شعبہ میں شاندار ترقی ہوئی ہو۔ سندھ والے تو خیر سے گذشتہ 8 برسوں سے آپ کی ترقیاتی کاموں کا ثمر کاٹ رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے بھوک ننگ اور بیماری بھی وہاں کے غریب عوام پر آپ لوگوں کی طرح ہی مسلط ہے۔ اسکے باوجود اگر وہ خاموش ہیں تو یہ ان کا ہی حوصلہ ہے۔ پنجاب والوں میں اتنا حوصلہ کہاں؟
٭٭٭٭٭٭
نئی دہلی میں اوباش نوجوانوں کی بھارتی مرکزی وزیر سمرتی ایرانی سے چھیڑ چھاڑ
یہ ہے مہان بھارت کا اصل چہرہ۔ جہاں سے بڑے زور و شور سے ”مہیلا¶ں“ کی حفاظت کے نام پر دنیا کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ ہیپی نیو ائر جیسے تہواروں میں بھی بے چاری مہیلائیں اوباشوں کا نشانہ بنتی ہیں۔ سرعام عورتوں پر تشدد۔ گاڑیوں‘ بسوں‘ ٹرینوں میں ان سے زیادتی بھی عام ہے۔ غیر ملکی سیاح خواتین و طالبات تک وہاں تنہا نکلنے سے ڈرتی ہیں۔ اب باقی عورتوں کو تو چھوڑیں خود بھارت کی مرکزی وزیر سمرتی ایرانی جو ”ساس بھی کبھی بہو تھی“ نامی ڈرامے میں مرکزی کردار بھی ادا کر چکی ہیں‘ سے جب راجدھانی دہلی میں نشے میں دھت کار سوار لڑکوں نے چھیڑچھاڑ کی تو وہ
مجھے چھیڑو نہ نند لالہ
کہ میں ہوں برج بالا
نہیں میں رادھا تیری
کہہ کر بھی ان سے جان نہیں چھڑا سکی اور ان کی ساری وزیری اور بہادری دھری کی دھری رہ گئی اور پولیس کو بلا کر انہوں نے اپنی جان چھڑائی۔ امید ہے اس واقعہ کے بعد بھارتی سرکاری جتنی چنتا گا¶ماتا کی کرتی ہے اتنی اگر بھارتی مہیلا¶ں کی بھی کرنے لگے تو عورتوں کے خلاف جرائم میں کمی آ سکتی ہے۔سوال بھی بڑا اہم ہے کہ سمرتی کے ساتھ پروٹوکول تھا نہیں‘ یا وہاں پروٹوکول کا رواج نہیں ہے جو ہمارے ہاں عوام کیلئے وبال بنا رہتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭