• news
  • image

افغان سرحدپر سکیورٹی ناگزیر‘ آرپار جانیوالے اداروں سے تعاون کریں

بلوچستان کے سرحدی علاقے چمن بارڈر پر فورسز اور مشتعل مظاہرین کے درمیان ہوائی فائرنگ، لاٹھی چارج اور شیلنگ سے ایک شخص جاں بحق اور 7 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 10 افراد زخمی ہوگئے۔ کشیدگی کے باعث پاک چمن باب دوستی گیٹ بند کردیا گیا۔ گزشتہ روز مشتعل افراد اور فورسز کے درمیان بارڈر کے دونوں جانب آنے جانے کے دوران شناختی کارڈ چیک کرنے کی وجہ سے کشیدگی پائی گئی۔ مشتعل افراد نے فورسز کی جانب سے اسکے مطالبے کیخلاف احتجاج کیا جس کے بعد فورسز نے باب دوستی گیٹ کو بند کر دیا‘ مشتعل مظاہرین نے فورسز پر پتھراﺅ کیا اور فورسز کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کر نے کیلئے شیلنگ، ہوائی فائرنگ کی گئی۔ دونوں جانب سے فائرنگ اور پتھراﺅ کی وجہ سے تین افراد عبدالولی ، فیض اللہ اور نعمت اللہ زخمی ہو گئے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ افغانستان سے آتے ہوئے بارڈر کے اس پار لمبی قطاروں میںکھڑا کیا جاتا ہے اسی طرح پاکستانی حدود میں آئی ڈی کارڈ مانگتے ہیں جس کے وجہ سے لو گوں کو آنے جانے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم جھڑپوں کے دو گھنٹے کے بعد سرحد کو کھول دیا گیا۔
دریں اثناءوزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف کی زیر صدارت گزشتہ روز صوبائی کابینہ کمیٹی برائے امن وامان کا اجلاس منعقد ہوا جس میںپنجاب کے داخلی اورخارجی راستوں کی نگرانی مزید سخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیراعلیٰ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار دھرتی کا بوجھ ہیںاوردہشت گردی کے ناسورکے خاتمے کیلئے پوری قوم متحد ہوچکی ہے۔ انشاءاللہ اتحاد کی قوت سے ملک کو دہشت گردوں کے ناپاک وجود سے پاک کر کے اسے امن کا گہوارا بنائیں گے۔
پاک افغان تعلقات میں کبھی گرم جوشی نہیں دیکھی گئی‘ عموماً سردمہری رہی اور کبھی کبھی کشیدگی بھی درآتی رہی ہے۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی تعلقات میں کشیدگی اس وقت درآئی تھی جب ظاہرشاہ حکومت نے نوزائیدہ مسلم مملکت کو تسلیم کرنے اور شانہ بشانہ ہونے کے بجائے اقوام متحدہ میں اسکی مخالفت کی۔ ظاہر شاہ معزول ہوئے‘ اسکے بعد آنیوالے حکمرانوں میں کوئی طبعی موت مرا‘ کوئی پھانسی چڑھا اور کوئی قتل ہوا مگر دورِاقتدار کے دوران ہر کسی نے پاکستان کی مخالفت کی اور وہ بھی اسکے باوجود کہ سرحد کے آرپار نہ صرف مسلم برادرہڈ تھی بلکہ خون کے رشتے تھے اور ہنوز ہیں۔ پاکستان کی طرف سے افغانستان کی کبھی مخالفت نہیں کی گئی‘ اسے نقصان پہنچانا تو دور کی بات ہے‘ پاکستان کو جب کبھی مصائب کا سامنا کرنا پڑا افغانستان نے کبھی مدد و تعاون کی کوشش نہیں کی جبکہ ایسے حالات کا جب کبھی افغانستان کو سامنا کرنا پڑا‘ پاکستان نے ایک اچھے پڑوسی اور اسلامی اخوت کا مظاہرہ کیا۔ افغان دور میں لاکھوں افغان دربدر ہوئے تو ان میں سے 30 لاکھ سے زائد افغانوں کیلئے پاکستان نے اپنے بازو کھول دیئے‘ انکو گلے لگایا۔ آج ان افغانوں کو پاکستان میں رہتے اور پاکستان کے وسائل استعمال کرتے ہوئے 35 سال ہوگئے ہیں۔ کچھ حلقوں کی طرف سے افغانوں کو نکال باہر کرنے کے مطالبات سامنے آتے ہیں مگر حکومت ان کو باوقار طریقے سے واپس بھجوانا چاہتی ہے۔ باعزت واپسی کیلئے افغان حکومت کو اقدامات کرنے چاہئیں مگر حامد کرزئی اور اشرف غنی انتظامیہ کی پاکستان کے حوالے سے یکساں پالیسی رہی ہے۔ دونوں نے اپنے اقدامات سے خود کو امریکہ کی کٹھ پتلی اور بھارت کا پٹھو ثابت کیا ہے۔
بھارت کیلئے پاکستان کا وجود ناقابل برداشت ہے‘ وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا نہ صرف کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتا بلکہ اسے مواقع خود پیدا کرکے اپنی خباثت اور مکاری کا ثبوت دیتا ہے۔ وہ شروع سے افغان حکمرانوں کو پاکستان کیخلاف استعمال کرتا چلا رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد افغانستان سے ہوتی ہوئی دہشت گردی پاکستان میں داخل ہوئی تو بھارت نے دہشت گردی کی اس آگ کو الاﺅ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ افغان سرزمین کو پاکستان میں مداخلت اور دہشت گردی کیلئے استعمال کیا گیا۔ پاکستان نے بارڈر مینجمنٹ کی کوشش کی تو بھارت کے ایماءپر افغان حکمرانوں نے اسے ناکام بنانے کے ممکنہ ہتھکنڈے اور حربے استعمال کئے۔ طورخم بارڈر پر زیرتعمیر گیٹ پر فائرنگ کرکے ایک میجر سمیت 20 افراد کو شہید اور زخمی کردیا۔ افغان حکومت پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگاتی ہے‘ امریکہ بھی کہتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہیں۔ اگر ایسا کچھ ہے تو ان دہشت گردوں کو افغانستان میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے بارڈر سیل کرنے اور انٹری پوائنٹس پر چیکنگ سے اچھا کیا طریقہ ہو سکتا ہے۔ افغانستان کی طرف سے بارڈر مینجمنٹ کی شدید مخالفت اسکی بدنیتی اور بھارتی ایجنڈے پر کاربند ہونے کا ثبوت ہے۔
قائداعظم نے فاٹا کے لوگوں کو پاکستان کا بازوئے شمشیرزن کہا تھا‘ انکی موجودگی میں پاکستان نے کبھی مغربی سرحد کی حفاظت کی ضرورت محسوس نہیں کی مگر جب امریکہ نے روس کیخلاف لڑنے کیلئے تیار کئے جانیوالے مجاہدین کو اپنے مقاصدکیلئے استعمال کرنے کے بعد بے یارومددگار چھوڑ دیا تو ان میں کچھ مضبوط اور طاقتور ہو کر امریکہ کے گلے پڑ گئے اور پھر یہی مجاہدین امریکی نظر میں دہشت گرد قرار پائے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ انکے خاتمے کیلئے نکلا تو پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں پاکستان کو بدترین دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکہ نے جس طرح ”مجاہدین“ کو استعمال کرنے کے بعد تنہاءچھوڑ دیا تھا‘ اسی طرح افغان وار کے بعد جس میں پاکستان اس کا فرنٹ لائن اتحادی تھا‘ اس کو نظرانداز کردیا۔
طالبان حکومت کے بعد حامد کرزئی اور اشرف غنی حکومت میں آئے۔ امریکہ اور اتحادیوں کی افواج کا بڑا حصہ واپس جا چکا ہے‘ اسکے باوجود افغانستان میں امریکہ معاملات کو کنٹرول کر رہا ہے۔ پاکستان نے اسکے سامنے افغان سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال ہونے کے ثبوت رکھے مگر امریکہ بھارت کیخلاف نوٹس لینے اور پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کو حوالے کرنے پر تیار نہیں۔ پائے رفتن نہ جائے ماندن کے مصداق پاکستان نے افغان سرحد سیل کرنے‘ انٹری پوائنٹس پر دہشت گردوں کی آمدورفت روکنے کے سخت اقدامات کئے تو جہاں افغان حکومت نے واویلا مچایا‘ وہیں پاکستان میں بھارت اور افغان حکمرانوں کے منظور نظر لوگوں نے بھی دہائی دینا شروع کردی۔
پاکستان میں تیس لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں‘ بھارت ان میں کچھ کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتا ہے۔ افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کیلئے چلنے والوں کو انہی میں سے کچھ لوگ پناہ دیتے ہیں۔ تیس کے تیس لاکھ کو پاکستان کیخلاف اور بھارت کیلئے کام کرنے کا موردِالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا‘ ان میں کالی بھیڑوں کی تعداد سیکڑوں میں ہو سکتی ہے جو آٹے میں نمک سے بھی کم ہے مگر پاکستان کو دہشت گردی کی آگ میں جلانے میں ممدومعاون ہو رہی ہے۔ اپریشن ضرب عضب کے دوران ایسے ایجنٹوں‘ جاسوسوں‘ دہشت گردوں کے حامیوں اور سہولت کاروں کی تلاش ہے۔
وہ سنہرا دور تھا جب پاک افغان سرحد اوپن تھی‘ آرپار جانے میں کوئی قدغن‘ پابندی اور مشکل نہیں تھی۔ سرحد کے آرپار عزیزداریاں اور رشتہ داریاں ختم نہیں ہو سکتیں۔ آج بھی آرپار جانے میں کوئی پابندی نہیں ہے تاہم سکیورٹی کے نکتہ نظر سے کچھ مشکلات ضرور ہیں۔ ان حالات میں بارڈر آرپار آنے جانیوالوں کو اداروں سے تعاون کرنا ہوگا جو خود ان کی جان و مال اور اولاد کیلئے بھی ضروری ہے۔ سکیورٹی اور سکون ساتھ ساتھ نہیں چل سکتا۔پنجاب نے تو اپنی حدود میں داخلے پر بھی چیکنگ سخت کردی ہے۔ شہروں‘ قصبوں‘ اداروں اور مساجد تک میں سکیورٹی کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دو ممالک کے مابین اور افغانستان جس کی زمام اقتدار پاکستان کیخلاف ادھار کھائے بیٹھے حکمرانوں کے پاس ہے‘ سکیورٹی کو کیوں یقینی بنانے کے ممکنہ اقدامات نہ کئے جائیں۔
دونوں ملکوں میں دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے سکیورٹی کے انتظامات کئے گئے ہیں۔ افغانستان کے عدم تعاون کے باعث انٹری بند کردی گئی تھی۔ وزیراعظم نوازشریف کے خصوصی احکامات پر سرحد کھول دی گئی۔ بارڈر پر لائنوں میں لگے افراد ذرا لائن میں لگنے کی مشکل اور اس تکلیف سے موازنہ کریں جو سرحد بندی سے ہو رہی تھی۔ شناختی کارڈ اور مطلوبہ دستاویزات ہونے کے باوجود اداروں کو مشکوک افراد کی سکروٹنی کا اختیار ہے۔ اس سے دہشت گردوں اور سہولت کاروں کو مسئلہ ہو سکتا ہے‘ پرامن شہریوں کو نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ افغان انتظامیہ کے ایماءپر پاکستان کے سکیورٹی انتظامات اور اقدامات کو سبوتاژ کرنے کیلئے احتجاج اور مظاہرے کرائے گئے ہوں۔ پرامن لوگ شناختی کارڈ طلب کرنے پر اسلحہ نکال کر فوج کا مقابلہ نہیں کرتے۔ یہ خناس پاکستان دشمن ذہنیت کا عکاس ہے۔ پاکستان کی طرف سے دو گھنٹے کی بندش کے بعد سرحد پھر کھول دی گئی۔ آرپار کے پرامن شہریوں کو ایسے لوگوں پر نظر رکھنی چاہیے جو دشمن کی انگیخت پر سرحد پر بے یقینی کے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن