• news
  • image

چار اپریل 1979ء

ائیر چیف مارشل ذوالفقار علی خان جنرل ضیاءالحق کی مارشل لاءحکومت میں چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تھے۔ ائیر چیف مارشل ذوالفقار علی خان کو 1976ءمیں فضائیہ کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ذوالفقار علی خان کو ائیر چیف مارشل ظفر چودھری کی جگہ فضائیہ کا سربراہ بنایا تھا۔ ائیر چیف مارشل ظفر چودھری نے بطور ائیر چیف اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ظفر چودھری نے اپنی کتاب Mosaics of Memory میں ان وجوہ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے جو ان کے استعفیٰ کا سبب بنی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں چیئرمین جائنٹ چیفس آف کمیٹی کا ایک نیا عہدہ تخلیق کیا تھا۔ ائیر چیف مارشل ذوالفقار علی خان کو چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بنایا گیا تھا۔ ائیر فورس سے ریٹائرمنٹ کے بعد ذوالفقار علی خان کو بینظیر بھٹو نے اپنے پہلے دور حکومت میں امریکہ میں سفیر مقرر کیا تھا۔ اسی کی دہائی میں ائیر چیف مارشل ذوالفقار علی خان سے اس خاکسار کی کئی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ ان دنوں ذوالفقار علی خان نوائے وقت کے ادارتی صفحہ کے لئے کالم بھی لکھتے تھے۔ اس زمانے میں ایک ملاقات میں ذوالفقار علی خان نے ایک انٹرویو میں مجھے بتایا کہ جب میں چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تھا تو 1979ءمیں جنرل ضیاءالحق نے مجھے اہم اسلامی ملکوں کے دورے پر بھیجا تاکہ میں ان ملکوں کے سربراہوں کی بھٹو کوسپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت پھانسی دینے کے معاملے پر رائے معلوم کر سکوں۔ ائیر چیف مارشل ذوالفقار علی خان کے مطابق انہوںنے متحدہ عرب امارات ‘ سعودی عرب‘ ترکی اور کئی دوسرے دوست اسلامی ملکوں کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے میں ان ملکوں کے سربراہوں نے واضح طور پر یہ پیغام دیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینا ایک سنگین غلطی ہو گی۔ ذوالفقار علی خان کے مطابق ترکی کی اس وقت کی قیادت نے مجھے خبردار کیا تھا کہ اگر بھٹو کو پھانسی دی گئی تو ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہو جائے گا۔ ترک قیادت نے ترکی کے وزیراعظم عدنان میندریس کو 1960ءمیں ترکی میں فوجی بغاوت کے بعد پھانسی دینے کے فیصلہ کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ عدنان میندریس کو پھانسی دئیے جانے کے بعد ترکی طویل عرصہ تک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا۔ ائیر چیف مارشل ذوالفقار خان نے جب دوست اسلامی ملکوں کے دورے کے بعد جنرل ضیاءالحق کو بھٹو کو پھانسی دینے سے متعلق خیالات سے آگاہ کیا تو جنرل ضیاءالحق نے اہم اسلامی ملکوں کی رائے کو نظر انداز کر دیا۔ بھٹو کو پھانسی نہ دینے اور سپریم کورٹ کی طرف سے ان کی سزائے موت کو سزائے عمر قید میں تبدیل کرنے کے لئے امریکہ سمیت کم سے کم ایک سو ملکوں کے سربراہوں نے جنرل ضیاءالحق سے اپیل کی تھی لیکن یہ اپیلیں کارگر ثابت نہ ہوئیں۔ اس دور میں پی پی پی کے لیڈروں اور کارکنوں کی رائے یہ تھی کہ دنیا کے اکثر ملکوں کی طرف سے بھٹو کی جان بخشی کے لئے کی جانے والی اپیلوں کے بعد بھٹو کے پھانسی چڑھنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ لیکن فوجی حکومت خاص طور پر جنرل ضیاءالحق نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکانا ہے۔ بھٹو کو سپریم کورٹ کی طرف سے پھانسی کی سزا ملنے کے بعد نظر ثانی کی اپیل بھی دائر کی گئی تھی لیکن وہ بھی مسترد ہو گئی تھی۔ جس کے بعد ملک میں ایک سپنس کی صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔ یہ سوال زبان زد عام تھا کہ بھٹو کو پھانسی دی جائے گی یا نہیں ؟ اس زمانے میں یہ خبریں بھی گشت کر رہی تھیں کہ بھٹو کو راولپنڈی جیل کی کوٹھڑی سے نکال کر لے جانے کے لئے فلسطین کی تنظیم آزادی پی ایل اوکے گوریلے ایک کمانڈو آپریشن کے ذریعے انہیں نکال کر لے جائیں گے۔ ان اطلاعات کے بعد راولپنڈی کی اس جیل میں جہاں مسٹر بھٹو قید تھے کی سیکورٹی بہت سخت کر دی گئی تھی۔

مارچ 1979ءکے آخری دنوں میں ہمارے صحافی دوست چودھری غلام حسین کی ایک بائی لائن خبر اس وقت کے انگریزی روزنامہ ”مارننگ نیوز“ کے فرنٹ پیچ پر شائع ہوئی کہ مسٹر بھٹو کو چار اپریل کو پھانسی دے دی جائے گی۔ یہ خبر صحافتی اور سیاسی حلقوں میں زیر بحث رہی۔ پیپلز پارٹی کے بعض حلقے یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے کہ بھٹو کو پھانسی ہو گی۔ کچھ حلقوں کا خیال تھا کہ مارشل لاءحکومت نے یہ خبر لیک کی ہے تاکہ عوامی ردعمل کا جائزہ لیا جا سکے۔ اگلے چند دنوں میں رونما ہونے والے واقعات سے اندازہ ہو رہا تھا کہ مسٹر بھٹو کی زندگی کے دن تھوڑے ہیں۔ اس کی ایک بڑی نشانی بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کی راولپنڈی جیل میں مسٹر بھٹو سے آخری ملاقات تھی۔ جس کا تذکرہ بینظیر بھٹو نے اپنے انٹرویوز اور کتابوں میں کیا ہے۔
1979ءکے شروع میں راقم نے روزنامہ جنگ سے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا تھا اس وقت جنگ کا دفتر گوالمنڈی راولپنڈی میں ہوتا تھا۔ تین اپریل کی رات گئے بی بی سی کے اس دور کے پاکستان میں متعین نمائندہ مارک ٹیلی کے حوالے سے خبر نشر ہوئی کہ ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی ہے۔ مار ٹیلی نے 1977ءمیں پاکستان قومی اتحاد کی بھٹو حکومت کے خلاف تحریک کی زبردست کوریج کی تھی۔ بی بی سی کا را ت آٹھ بجے کا خبرنامہ سننے کے لئے پاکستانیوں کی اکثریت منتظر رہتی تھی۔ پی این اے کی بھٹو مخالف تحریک میں مارک ٹیلی کے نام سے سارا پاکستان واقف ہو چکا تھا۔ مارک ٹیلی کی خبر کی تصدیق کے لئے پاکستانی صحافی رات دیر تک تگ و دو کرتے رہے۔ انہیں جیل تک جانے کا موقع نہ ملا۔ ہمارے سینئر ساتھی سعود ساحر اور ضمیرنفیس کو رات گئے پتہ چلا کہ بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ جب وہ جیل کی طرف گئے تو انہیں سیکورٹی اہل کاروں نے حراست میں لے لیا اور چکلالہ پولیس چوکی میں صبح آٹھ بجے تک رکھا۔ برادرم سعود ساحر کے مطابق جب وہ راولپنڈی جیل کے قریب پہنچے تو بی بی سی کا نمائندہ مارک ٹیلی وہاں موجود تھا۔ اس کے علاوہ جنگ کے سینئر رپورٹر زیڈ یو خان بھی وہاں موجود تھے۔ چار اپریل 1979ءکو بھٹو کی پھانسی کی خبر کی تصدیق بہت تاخیر سے ہوئی تھی جس کی وجہ سے اخبارات بہت تاخیر سے شائع ہوئے تھے۔ مسٹر بھٹو کی لاش کو ایک سی۔ 130 کے ذریعہ لاڑکانہ میں تدفین کے لئے لے جایا جا رہا تھا کہ یہ طیارہ میانوالی پر پرواز کے دوران خراب ہو گیا جسے واپس راولپنڈی لایا گیا اور دوسرے سی۔ 130 طیارے کے ذریعے بھٹو مرحوم کی لاش لاڑکانہ پہنچائی گئی جہاں انہیں سخت سیکورٹی میں علی الصبح سپرد خاک کر دیا گیا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن