کئی ملکوں میں 1863ء سے میٹرو ٹرین چل رہی ہے‘ کسی عمارت کو نقصان نہیں پہنچا: جسٹس عظمت
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے میٹرو اورنج لائن ٹرین لاہو رمنصوبہ کیس کی سماعت کے دوران قرار دیا کہ لاہور میٹرو ٹرین کا ڈھانچہ بھی بیرون ملک چلنے والی میٹرو ٹرین جیسا ہونا چاہیے، دنیاکے کئی ممالک میں 1863ء سے زیر زمین ٹرین سسٹم چل رہا ہے، وہاں کبھی میٹروٹرین کے چلنے سے کسی عام یا تاریخی عمارت کو نقصان نہیں پہنچا، لندن میں بھی میٹرو ٹرین چل رہی ہے لیکن اس سے لندن ٹاورنہیں گرا۔ لاہور ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے وکیل نے موقف اپنایاکہ اورنج ٹرین کے ارتعاش سے اردگرد کی عمارتوں پر اثر نہیں پڑیگا۔ لاہور ہائیکورٹ نے 7 ماہرین کی رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے حالانکہ کسی نے عدالت کے روبرو ماہرین کی رپورٹس پر اعتراض نہیں کیا تھا۔ اورنج ٹرین کے حوالے سے رپورٹ جاری کرنے والے ماہرین ڈاکٹر اپیل اور پامیلا راجر ماضی میں حکومتی اداروں سے وابستہ رہے اوراسی بنیاد پر ان کی رپورٹ کو مسترد کیا گیا۔ جسٹس مقبول باقر نے وکیل سے کہاکہ یونیسکو کی رپورٹ میں کچھ مقامات کی نشاندہی کی گئی جہاں میٹرو ٹرین چلنے کے باعث پیداہونے والے ارتعاش کے اثرات پڑسکتے ہیں۔ وکیل نے کہاکہ ٹرین کے ارتعاش سے ادردگرد کی عمارتوں پر اثر نہیں پڑے گا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید کا کہناتھاکہ اورنج ٹرین کے حوالے سے پاکستانی ماہرین کی رپورٹ قابل قبول نہیں تو کیا بھارتی ماہرین کو بلایا جائے ،بظاہر لاہور کورٹ کے فیصلے میں دی گئی وجوہات قابل قبول نہیں،ہائیکورٹ نے جو وجوہات بتائی ہیںان میں تضاد پایاجاتاہے ،اس امرکویقینی یہ بنانا چاہیے کہ تاریخی عمارتوں کے ڈحانچے کو۔نقصان نہ پہنچے ، جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ جن شاہراہوں پر میٹرو بن رہی ہے وہاں ٹریفک کا دبائو پہلے ہی بہت زیادہ ہے میٹرو سے پیدا ہونے والے ارتعاش کا سائنسی بنیادوں پر جائزہ لیا گیا ہے ،عدالت کو میٹرو اتھارٹی کے وکیل نے بتایا کہ میٹرو کے چلنے سے تین ملی میٹر فی سیکنڈ ارتعاش پیدا ہو گا اور ارتعاش کی یہ شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ میٹرو ٹرین میں ابتدائی مرحلے کے دوران یومیہ اڑھائی لاکھ مسافر سفر کریں گے تاہم بعد ازاں یہ تعداد بڑھ کر پانچ لاکھ یومیہ تک پہنچ جائے گی۔ ایک سوال کے جواب میں وکیل نے بتایاکہ بھارت کے شہر دہلی اور جے پور میں میٹرو ٹرین تاریخی عمارتوں کے قریب سے گزرتی ہے اورلاہور میں بھی وہی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے، لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے وکیل نے موقف اپنایاکہ منصوبے کی نگرانی کیلئے مانیٹرنگ ٹیم کی موجودگی این او سی کا حصہ ہے ایک موقع پربنچ کے سربراہ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ لاہورہائی کورٹ نے ماہرین کی رپورٹس مسترد کردی ہیں لیکن وجوہات نہیں بتائی ہیں اصل میں منصوبے کی تکمیل میں تمام قانونی تقاضوں کا پورا کیا جانا لازمی ہے جسٹس شیخ عظمت نے کہاکہ ریلوے ٹرین سے زیادہ ارتعاش پیدا ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود ریلوے سٹیشن کے قریب 18ویں صدی میں قائم کمرے آج بھی قائم ہیں، جس پرایل ڈی اے کے وکیل نے عدالت کوبتایاکہ مستقبل میں اورنج ٹرین سے اگرکوئی نقصان ہوا تو اس کی مرمت کی جائے گی۔ آن لائن کے مطابق جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہمیں ہمیشہ کسی جادوگر کا انتظارکیوں رہتاہے،کیا باہر سے آنے والا مشن اس منصوبے کی قسمت کا فیصلہ کرے گا، کیا عدالت مشن کی آمد کے انتظار میں بیٹھی رہے،کیا غیر ملکی مشن ہمیں آثار قدیمہ کی اہمیت سے آگاہ کرے گا، ہمارا مقصد ہے کہ تاریخی عمارتوں کو نقصان نہ پہنچے، شالیمار باغ کے اردگرد جب تعمیرات ہو رہی تھیں توسب سوئے تھے۔