چودھری صاحب کا کالا باغ ڈیم اور ”ادبیات“
چودھری پرویز الٰہی نے بہت دلچسپ بات کی۔ اس سے اختلاف اور اعتراف کا حق ہر کسی کو ہے۔ ”شہباز شریف بجلی بنانے جاتے ہیں اور مال بنا کے آ جاتے ہیں۔“ ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ عوام نے ساتھ دیا تو ہم کالا باغ ڈیم بنا کے بجلی تین روپے فی یونٹ کر دیں گے۔ یہ خوشخبری ہے تو یہ بھی اچھی خبر ہے کہ بہت اچھے دل والے قابل ڈاکٹر راشد ضیا علامہ اقبال میڈیکل کالج کے پرنسپل مقرر ہو گئے ہیں۔ بہت اچھے مزاج والے ڈاکٹر اسد اسلم کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنا دیے گئے ہیں اس کے ساتھ یہ بھی ہوا کہ اچھے دل و دماغ والے ڈاکٹر نوید اشرف تقریباً صحت یاب ہو کر یورپ سے وطن واپس آ گئے ہیں۔
اس وقت بجلی 16 روپے فی یونٹ ہے۔ چودھری صاحب کہتے ہیں کہ زرعی ٹیوب ویل فری چلائیں گے۔ ہم نے یہاں زرعی یونیورسٹی اور میڈیکل کالج بنوایا۔ انہوں نے ایک اور دلچسپ بات کی۔ ہم وطن میں کارڈیالوجی ہسپتال بھی بنوائیں گے کہ نواز شریف کا علاج بھی یہیں ہو۔ ایسا ہسپتال یہاں ہو کہ وطن میں امیر کبیر اور حکمران علاج کرا سکیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ یہاں کے ہسپتالوں اور ڈاکٹروں سے مطمئن نہیں۔ سب پاکستانی یہاں سے علاج کرواتے ہیں۔ ویسے بیرون ملک میں بھی پاکستانی ڈاکٹروں پر اعتماد کیا جاتا ہے۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ حکمران کیوں کالا باغ ڈیم نہیں بنواتے۔ بھٹو صاحب تو بڑی آسانی سے کالا باغ ڈیم بنوا سکتے تھے۔ ان کا تعلق سندھ سے تھا اور سندھ ہی زیادہ مخالف ہے۔ جبکہ اسفند یار ولی خان کالا باغ ڈیم کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کالا باغ ڈیم ہماری لاشوں پر بنے گا۔ خدا کی قسم کوئی حکمران نیک نیتی سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر شروع کرائے۔ اسفند یار ولی اپنی سب سے چھوٹی انگلی بھی نہیں کٹوائیں گے۔ لاشوں کی سیاست کرنا آسان ہے۔ جان دینا ناممکن ہے؟
بھٹو صاحب کے بعد صدر جنرل ضیاالحق بھی کالا باغ ڈیم بنوا سکتے تھے۔ جنرل صدر مشرف نے تو ارادہ بھی کر لیا تھا مگر حکمرانوں کے ارادے اور وعدے ایسے ہی ہوتے ہیں؟
جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں
اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا
بزدل لوگ کوئی معرکہ آرائی نہیں کر سکتے۔ چودھری پرویز الٰہی سے ایک تعلق ہے۔ وہ مخصوص لوگوں کے علاوہ دوسروں کو بھی دوستوں کی حیثیت دیتے ہیں مگر ایک دوستانہ گلہ ان سے بھی ہے کہ انہوں نے بھی پانچ سال حکومت کی۔ پنجاب کے سب سے بڑے حکمران وزیراعلیٰ رہے۔ بڑے بڑے کام کئے عمران خان تو یہاں تک کہتے ہیں کہ چودھری صاحب نے ترقیاتی کام کیے جو شہباز شریف کے زمانے میں بھی نہیں ہوئے۔ ان کے بھائی چودھری شجاعت کچھ دنوں کے لیے وزیراعظم رہے۔ وہ بھی تو کالا باغ ڈیم کی بنیاد رکھوا سکتے تھے۔ ایک بار یہ عظیم اور پاکستان کے لیے نعمت جیسا ڈیم بننا شروع ہو گیا تو کوئی چوں بھی نہیں کرے گا۔ شہباز شریف بہت منتظم اور جابر مشہور ہیں۔ وہ بھی یہ ڈیم بنوا سکتے ہیں۔ ان کے اقتدار کی عمر سارے حکمرانوں سے زیادہ ہے۔ ان کا جو جی چاہتا ہے کر گزرتے ہیں۔ میٹرو اور اورنج ٹرین کے لیے ان کی استقامت اور ثابت قدمی قائم ہے۔ عدالت اورنج ٹرین کے بری طرح خلاف ہے مگر ابھی اس کی ابتدائی تعمیر کے آثار باقی ہیں۔ چودھری صاحب نے یہ اعلان کیا تو ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
چودھری پرویز الٰہی کے اعلان کے بعد تو شہباز شریف کو کالا باغ ڈیم بنانے کی جرات کر گزرنی چاہیے اور ایک اعلیٰ کارڈیالوجی ہسپتال بھی بنوانا چاہیے تاکہ نواز شریف دل کے علاج کے لئے بیرون ملک نہ چلے جایا کریں۔ اب پھر خطرہ ہے کہ وہ بیرون ملک جا رہے ہیں۔
کہتے ہیں پانامہ کیس کا فیصلہ نواز شریف کے حق میں نہیں ہو گا تو پھرنواز شریف کا کیا بنے گا۔ انہیں وزارت عظمیٰ چھوڑنا پڑے گی۔ وہ وزارت عظمیٰ تو شاید چھوڑ دیں مگر یہ نہیں چاہتے کہ ان کے بجائے کوئی اور وزیراعظم بنے۔ چودھری نثار کے لیے بہت چہ مہ گوئیاں ہیں کہ وہ وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ میرے خیال میں وہ اب تک کے ایسے لوگوں کو فہرست میں سب سے بہترین وزیراعظم ہوں گے۔ کرپشن میں کمی آئے گی۔ وہ خود کرپشن نہیں کرتے تو دوسرے بھی شرم کریں گے۔ شہبازشریف بھی یقیناً بہتر وزیراعظم ہو سکتے ہیں۔ چلیے ہم نواز شریف کے لیے آسانی پیدا کر دیتے ہیں۔ وہ مریم نواز کو وزیراعظم بنا دیں اور کسی سیٹ پر الیکشن لڑوا لیں۔ مریم نواز بھی ان سے اچھی وزیراعظم ثابت ہوں گی وہ مریم نواز پر اعتماد بھی کرتے ہیں۔
وہ خود صدر ممنون حسین کی بجائے صدر پاکستان بن جائیں جبکہ ممنون حسین کے جرات مندانہ بیانات سے ہم بہت متاثر ہیں۔ وہ کرپشن کے خلاف بہت کھلم کھلا اور زبردست بیان دیتے ہیں۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ حکمرانوں، افسروں، وزیروں اور خاص طور پر نواز شریف کے خلاف بول رہے ہیں۔ نواز شریف نے کبھی کرپشن کے خلاف بیان نہیں دیا شہباز شریف کبھی کبھی بولتے ہیں اور زبردست بولتے ہیں۔ میٹرو اور اورنج بھی ٹھیک ہیں مگر کوئی کام تو ایسا ہو جو قومی ہو۔ مریم نواز انہیں کوئی مشورہ دیں۔ صرف حکمران ہونا کافی نہیں۔ لیڈر ہونا ضروری ہے۔
چودھری نثار ہی کچھ کر جائیں کہ لوگ ان کے لیے صرف یہ سوچیں گے کہ وہ بہت زبردست وزیر تھے۔ چودھری صاحب نے یہ شہرت بنائی ہے کہ وزیراعظم کو لفٹ نہیں کرانا۔ یہ تاثر بنایا ہے کہ کسی کو لفٹ نہیں کرانی اور دوستوں کو بھی یہ سمجھا کے رکھنا ہے کہ میں بہت خوددار ہوں۔ اس کے باوجود ہم ان کی عزت کرتے ہیں کہ ایسا وزیر ہماری ”تاریخ وزارت“ میں نہیں آیا۔ وہ جو بھی کچھ ہیں مختلف تو ہیں۔ بہتر ہونا خوبی ہے۔ مگر مختلف ہونا بہت بڑی خوبی ہے۔ کون وزیر ہے کہ وزیراعظم جس کی عزت کو ملحوظ رکھتے ہوئے بات کرے۔ ہم ایک خوددار وزیر کے شکرگزار ہیں۔
مجھے اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے ”ادبیات“ کا نیا شمارہ ملا ہے۔ اکادمی کے سرگرم اور اہل دل انسان ڈاکٹر احمد قاسم بگھیو نگران ہیں اور ڈاکٹر راشد حمید مدیر منتظم ہیں۔ مدیر کے طور پر اختر رضا سلیمی کا نام رسالے میں موجود ہے۔ مجلس مشاورت میں برادرم ڈاکٹر توصیف تبسم کا نام پہلے نمبر پر ہے۔ گارڈن کالج پنڈی میں وہ میرے سینئر کولیگ تھے۔ ایک بڑے ادیب کی حیثیت سے ان کی طرف سے بہت رہنمائی ملی ڈاکٹر اقبال آفاقی، محمد حمید شاہد ڈاکٹر وحید احمد بھی مجلس مشاورت میں شامل ہیں۔ یہ ایک اہم اشاعت ہے۔ شعر و ادب کے فروغ کے لیے ادبیات ایک غنیمت ادبی رسالہ ہے۔ اس کے علاوہ ایک غیرسرکاری ادبی رسالہ بیاض بہت بڑی کوشش۔ اس وقت سرکاری ادبی رسالہ ادبیات اور غیرسرکاری ادبی مجلہ بیاض غنیمت ہے۔ میں بگھیو صاحب اور عمران منظور کو مبارکباد دیتا ہوں۔ انہیں چھوٹے بھائی نعمان منظور کی معاونت حاصل ہے۔ رسالہ ادبیات تقریباً ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل ایک بہت زبردست رسالہ ہے۔ ایسا رسالہ کسی سرکاری ادارے کی طرف سے ہی شائع ہو سکتا ہے۔ اس اشاعت کو باقاعدہ اور پسندیدہ بنانے کے لیے جناب قاسم بھگیو بہت دلچسپی لیتے ہیں۔
بہت معروف اور محترم خاتون عائشہ مسعود کے ساتھ پچھلے دنوں بھگیو صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ہم نے اکٹھے کھانا کھایا۔ برادرم حسن عباس رضا نے بھی ہمیں جائن کیا۔ بڑی مدت کے بعد ڈاکٹر نجیبہ کی گہری اور خوبصورت تحریر پڑھنے کو ملی ہے۔ میں نجیبہ کی تحریر کی گھمبیرتا اور خوبصورتی کا قائل ہوں۔ یہ بہت پہلے کی بات ہے جب وہ جوہر آباد میں رہتی تھیں۔ اسلام آباد آ کے ان کی سوچ اور مزاج میں بہت فرق آیا ہے مگر ان کا اسلوب تحریر دل کو بہت بھاتا ہے۔