امریکہ کا شام پر میزائل حملہ‘ 5 فوجی ہلاک: دوبارہ ایسی کارروائی کے سنگین نتائج ہونگے‘ روس
دمشق/ واشنگٹن (نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد امریکہ نے شام پر پہلی یک طرفہ فوجی کارروائی کرتے ہوئے 59 ٹام ہاک کروز میزائلوں سے شامی ایئربیس پر حملہ کر دیا، فوجی اڈہ اور کئی طیارے تباہ، 5 شامی فوجی ہلاک ہو گئے۔ غیرملکی خبر رساں اداروں کے مطابق امریکہ نے بحیرہ روم میں موجود اپنے بحری بیڑے سے شامی فضائیہ کے طیاروں اور ایندھن کے سٹیشن کو نشانہ بنایا گیا۔ شامی مبصر تنظیم کے مطابق حملے کے نتیجے میں ایئر کموڈور سمیت 5 فوجی ہلاک ہوئے جبکہ ایئر بیس مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ مبصر تنظیم کا مزید کہنا تھا میزائل حملے میں ایئربیس کا رن وے، ایندھن کے ٹینکس اور فضائی دفاعی نظام ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بکھر گیا۔ تنظیم کے سربراہ رمی عبدالرحمن کے مطابق ایئربیس پر سخوئی 22، سخوئی 24 اور ایم آئی جی 23 لڑاکا طیارے موجود تھے جبکہ افسران کا کوارٹر بھی مکمل تباہ ہوگیا۔ پینٹاگون حکام نے امریکی کارروائی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ روس کو حملے کی پیشگی اطلاع دے دی گئی تھی۔ ٹرمپ نے کہا ہے شام کے صدر بشار الاسد کے رویے کو کئی بار تبدیل کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اپنے لوگوں پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کیا جو ناقابل قبول ہے۔ شام میں حملہ امریکی مفاد کے پیش نظر کیا گیا اور صرف ٹارگٹڈ فوجی کارروائی کا حکم دیا۔ دریں اثنا سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں روس نے دھمکی دی ہے کہ دوبارہ اس کارروائی کے امریکہ کو سنگین نتائج بھگتنا ہونگے۔ وائٹ ہائوس حکام کا کہنا تھا میزائل یو ایس ایس پورٹر اور یو ایس ایس روس کے ذریعے داغے گئے جو امریکی بحریہ کے چھٹے بیڑے کا حصہ ہیں۔ حکام کا مزید کہنا تھا کہ حملے کا نشانہ بننے والا ایئربیس 4 اپریل کو ہونے والے خوفناک کیمیائی حملے اور شامی حکومت کے کیمیائی ہتھیاروں کے پروگرام سے تعلق رکھتا تھا۔ دوسری جانب شامی حزب اختلاف گروہ نے امریکی حملے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے شام میں جاری حکومتی بے خوفی کے خاتمے کی نوید قرار دیا۔ شامی ایئربیس پر امریکی حملے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کا کہنا تھا مبینہ کیمیائی حملے کے جواب میں امریکہ کے ’واضح اور مضبوط پیغام‘ کی حمایت کرتے ہیں۔ روسی ڈیفنس کمیٹی کے سربراہ وکٹر اوزبروف نے کہا شام پر امریکی حملے سے انسداد دہشت گردی کی کوششیں خطرات سے دوچار ہو جائیں گی اور اس حوالہ سے روس اور امریکہ کے درمیان تعاون ختم ہو جائے گا۔ امریکہ کو سنگین نتائج بھگتنا ہونگے۔ امریکی کانگرس کے ارکان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ کیمیائی حملے کے بعد وہ اسد رجیم کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی کا خیرمقدم کریں گے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل آنتونیو گٹریس نے کہا ہے کہ شام کے شمال مغربی شہر ادلب میں خان الشیخون میں کیمیائی حملے میں دسیوں شہریوں کے قتل عام کے ذمہ داروں کو جلد از جلد کٹہرے میں لانا چاہتے ہیں۔ فرانسیسی وزیر خارجہ نے کہا امریکہ نے شام میں حملے سے پہلے اطلاع دی تھی جبکہ برطانیہ حکومت نے شام میں امریکی فضائی حملے کی مکمل حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی ایکشن شامی حکومت کے وحشیانہ کیمیائی حملے کا مناسب جواب ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا اس قسم کے یکطرفہ حملوں کا استعمال انتہائی خطرناک اور بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ پیوٹن نے کہا ہے کہ شام میں امریکی فضائی حملہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور اس سے روسی و امریکی تعلقات متاثر ہوئے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے شامی حکومت کے خلاف حملے کی اطلاعات کے بعد ایشائی سٹاک مارکیٹیں مندی کا شکار ہوگئیں جبکہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا اور ڈالر کی قیمت گر گئی جبکہ سونے کی قیمت میں اضافہ ہوا۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جاپان سے باہر ایم ایس سی آئی کے ایشیا پیسیفک حصص کا انڈیکس اعشاریہ 5 فیصد گر گیا۔ یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ سک نے امریکی مزائل حملے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے حملے کیمیائی حملوں کی وحشیانہ کارروائیوں کا ضروری حل ہیں۔ رائٹرز کے مطابق روسی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ روس امریکہ کے ساتھ شام میں فضائی تحفظ کے معاہدے کو منسوخ کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان کیا گیا تھا تاکہ دونوں ملکوں کی فضائیہ شام کی حدود میں ایک دوسرے کو نشانہ نہ بنائیں۔ سعودی عرب نے بھی امریکی کارروائی کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ کیمیائی حملہ کسی صورت قبول نہیں۔ رائٹرز کے مطابق لبنان سے حزب اللہ نے امریکی حملے کو احمقانہ قرار دیا ہے۔ روس اور ایران کا کہنا ہے کہ وہ شام کے صدر بشارالاسد کے ساتھ کھڑے ہیں۔ برطانیہ کا کہنا ہے روس سے مطالبہ کیا ہے کہ خانہ جنگی کے خاتمے کے لئے بشارالاسد کی حکومت پر مزید دباؤ ڈالے۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل اور فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ’اس حملے کی ساری ذمہ داری شام کے صدر بشار الاسد پر عائد ہوتی ہے۔ چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چن ینگ نے پریس بریفنگ میں کہا کہ ’اب اس بات کی ضرورت ہے کہ حالات کو مزید بگڑنے سے بچایا جائے۔ ہم کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے مکمل خلاف ہیں۔ آسٹریلیا‘ اٹلی نے بھی حملے کی حمایت کی ہے۔ انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے شام میں فوجی کارروائی بین الاقوامی مسلح تصادم کے زمرے میں آتا ہے۔ عالمی ریڈ کراس کی ترجمان نے کہا ایک ملک کی طرف سے بغیر دوسرے ملک کی رضا مندی کے فوجی کارروائی انٹرنیشنل آرمڈ کانفلکٹ یعنی بین الاقوامی مسلح تصادم کے زمرے میں آتی ہے۔ روس نے کہا ہے کہ اس حملے کے بعد امریکہ سے تصادم کا خطرہ بڑھ گیا ہے دوسری جانب امریکہ کی جانب سے میزائل حملوں کے بعد روس نے شام کے فضائی دفاعی ناظم کو مضبوط بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ امریکی فوجی حکام کے مطابق روس اور امریکہ کی افواج نے شام میں حادثات سے بچنے کیلئے ہاٹ لائن قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔روسی فریگیٹ مشرقی بحیرہ روم میں داخل ہو گیا امریکی میڈیا کے مطابق روسی وزیر فریگیٹ اس مقام کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں سے شام میں میزائل حملے کئے گئے۔ فریگیٹ جدید کیبلز کروز میزائلوں سے لیس ہے۔ غیر ملکی خیبر ایجنسی کے مطابق سلامتی کونسل میں امریکی مندوب نے شام میں مزید فوجی کارروائی کی دھمکی دیدی مزید حملے کرنے کیلئے تیار ہیں امید ہے اس کی ضرورت نہیں پڑے گی روسی مندوب نے کہا کہ شام پر امریکی حملے سے دہشت گرد مضبوط ہوں گے امریکہ مشرقی وسطیٰ میں نو آبادیاتی منافقت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ بی بی سی کے مطابق روس کے نائب سفیر ولادمیر سفکرونوف کا کہنا تھا کہ امریکہ کو سخت نتائج کیلئے تیار ہنا ہوگا اور اس کی تمام ذمہ داری ان لوگوں کے کندھوں پر ہوں گی جنہوں نے یہ حملے کئے اس سوال کے جواب میں کہ وہ سخت نتائج کیا ہوں گے ولادمیر سفکرونوف نے کہا لیبیا کو دیکھیں عراق کو دیکھیں علاوہ ازیں پاکستان نے شام کی صورتحال پر ردعمل میں کہا ہے کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال قابل مذمت ہے ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے کہا کہ پاکستان کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف ہے تمام فریقین مسئلے کا پیرامن حل تلاش کریں شام کے عوام نے بے پناہ مصائب کا سامنا کیا شامی عوام کے مسائل کا حل تلاش کیا جانا چاہئے پاکستان کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن کا رکن ہے کسی کی طرف سے یہی کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال قابل مذمت ہے۔ امریکہ نے شام پر اقتصادی پابندیاں لگانے کی تیاریاں شروع کر دی۔