ہفتہ‘ 10 ؍ رجب المرجب‘ 1438 ھ‘ 8 ؍ اپریل 2017ء
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ’’عام آدمی تحریک پاکستان پارٹی‘‘ رجسٹرڈ کر لی جس سے رجسٹرڈ پارٹیوں کی تعداد 334 ہو گئی۔
ہم کسی اور شعبے میں خودکفیل ہیں یا نہیں پارٹیوں کے شعبے میں ضرور خودکفیل ہیں۔ ان رجسٹرڈ پارٹیوں میں سے صرف 16الیکشن میں حصہ لیتی ہیں باقی ٹورٹپے کیلئے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ غیر رجسٹرڈ پارٹیوں کو بھی شمار کر لیا جائے تو تعداد ہزار بارہ سو سے کم نہیں ہو گی۔ مٹھو سٹریٹ ویلفیئر سوسائٹی بھی خود کو این جی اوز پارٹی ظاہر کرتی ہے۔ نئی پارٹی، نئے منشور، نئے عزم اور نئے دستور کے ساتھ پاکستان کی سیاست میں وارد ہوئی ہے۔ اسکے سربراہ ملک فرحان اللہ بھٹہ ہیں۔ یہ کون ہیں؟ وہ جانتے ہیں، الیکشن کمشن جانتا ہے یا پھر اللہ جانتا ہے۔ سب سے پہلے تو وہ کوئی اشتہار شائع کرائیں کہ میں کون ہوں۔ سیاست کا بھی بڑا چسکا ہے۔ اگر کسی کے ہاتھ قارون کا خزانہ لگ جائے، اسے سیاست کا شوق ہو، ہاتھ کھلا اور دل فراخ ہو تو وہ سیاسی پارٹی تشکیل دے دیتا ہے۔ نام کی تلاش 334میں سے کئی پارٹیاں اپنی مدد پیش کر دیتی ہیں۔ اس مالدار سیاستدان کو پارٹی کا نام مل جاتا ہے اور نام دینے والے کی لاٹری نکل آتی ہے، دل چاہے تو کوئی عہدہ بھی ہاتھ آ جاتا ہے۔ قومی سطح کی کانفرنس میں رجسٹرڈ پارٹیوں کو مدعو کیا جاتا ہے تو کبھی الیکشن نہ لڑنے والی پارٹی کا صدر جو موٹر سائیکل پر پارٹی سیکرٹری کے ساتھ آتا ہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ سربراہی کانفرنس میں نواز شریف، بلاول، زرداری اور عمران کے درمیان نشست پر بیٹھے۔ سیاست کا مزا ہی الگ ہے۔یہ اتنی پارٹیاں ہو گئی ہیں کہ ان کا الگ حلقہ بن سکتا ہے۔ تانگہ اور بائیک پارٹی سیاست میں تو میدان نہیں مار سکتیں ان کا الگ حلقہ بنا دیا جائے یہ بھی اپنا نمائندہ چن لیا کریں۔ ان پارٹیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کیا پاکستان میں کوئی ہو گا جس کو ان پارٹیوں کے نام ازبر ہونگے۔ ایک انٹرویو کے دوران نوجوان سے پوچھا گیا ٹائی ٹینک کب ڈوبا، اس نے درست جواب دیا۔ مسافروں کی تعداد کا سوال ہوا وہ بھی درست تھا۔ کتنے مرے، کتنے زندہ رہے، مرنے والا آخری مسافر، پائلٹ کا نام سب درست تھا۔ بورڈ اس کو رکھنا نہیں چاہتا تھا، اسے کہا آخری سوال کا جواب دو اور تقریری لیٹر ابھی لے جائو، نوجوان بڑا خوش ہوا۔ اسے کہا گیا ٹائی ٹینک پر سفر کرنے والے مسافروں کے نام اور گھر کے ایڈریس لکھ دو۔ ہمارے سی ایس ایس کے اکابرین تمام سیاسی پارٹیوں کے نام اور اسکے صدر اور سیکرٹری کا نام پوچھ کر بہتر نتائج دے سکتے ہیں کوئی امیدوار زیادہ تیزی دکھائے تو اس سے پہلے اور دوسرے نمبر کی پارٹیوں کے ارکان کے نام اور ایڈریس پوچھے جا سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
6روپے یونٹ بجلی پیدا کر لی تھی، چند حکومتی لوگوں نے فنڈز رکوا دئیے، ڈاکٹر ثمر مبارک مند
ڈاکٹر ثمر جھاڑیوں کی اوٹ سے شکاری کی طرح رونما ہو کر حکومت پر سنگ باری کرتے اور پھر غائب ہو جاتے ہیں۔ ان کو ایٹمی سائنسدان کہا جاتا ہے وہ بجلی کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑے ہوئے ہیں۔ فنڈز تو ان کے قابو آ گئے۔ بجلی کالی بلی کی طرح آگے آگے اور وہ پیچھے پیچھے ہیں۔ حکومت نے 9ارب روپے کا منصوبہ انکے سپرد کیا اس میں سے 3 ارب خرچ ہوئے، مزید رقم مانگی تو حکومت نے جواب دے دیا۔ وزیر منصوبہ بندی کہتے ہیں کہ جو سستی بجلی بنائی وہ تھرڈ پارٹی کو چیک کرائیں۔ ہمارے ملک میں کسی نے پانی پر گاڑی چلا کر دکھا دی جس سے امید پیدا ہوئی کہ اب گاڑیاں پانی پر چلیں گی مگر اس کیلئے گاڑی کے ساتھ ایک ٹرک یا ٹرالی کی ضرورت تھی جس میں پانی سے گیس پیدا کرنے کا پراجیکٹ نصب ہو۔ اس گیس سے گاڑی چلنی تھی۔ ثمر مبارک مند تھرڈ پارٹی سے اپنے 6روپے یونٹ والے منصوبے کی توثیق کرا لیں۔ 6 روپے یونٹ اگر 6 یونٹ کے بعد جواب دے گیا تو کون پانی سے گاڑی چلانے کو افورڈ کر سکے گا۔ حکومت اگر تعاون نہیں کرتی تو مزید چھ ارب روپے پر نظر نہ رکھیں۔ اپنی صلاحیت اور مہارت سے قوم کے نونہالوں کو مستفید کریں یہی کارِخیر ہے۔ اب تو پرائیویٹ سیکٹر اور صوبوں کو بھی بجلی کی پیداوار کا اختیار حاصل ہے۔ ان کو 6روپے یونٹ بجلی بنا کر دیں وہ 6 روپے والی 24روپے میں بیچیں گے۔ ان کا بھلا، آپ کا بھلا، ملک کا بھی بھلا اور انت بھلے کا بھلا۔ مگر پھر مشکل مقام اور مرحلہ، وہ بھی کہیں گے پہلے بنا کر چیک کرائو۔ ثمر مبارک مند کہہ سکتے ہیں لو تار کو ہاتھ لگا کر چیک کر لو۔
٭٭٭٭٭
آئی جی سندھ اچھے آدمی ہیں تاہم ان کو ہٹانا سندھ حکومت کا اختیار ہے، سید خورشید شاہ
سندھ کابینہ نے آئی جی سندھ کے ہٹانے کی منظوری دی ہوتی، ہائیکورٹ نے ان کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کی اور وہ کام کر رہے ہیں۔ یہ آئی جی سندھ کو ہٹانے کا معاملہ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے درمیان سانپ کے منہ میں چھپکلی والا مسئلہ بن گیا ہے۔ اب اس پر کابینہ کا اجلاس بلانے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ خورشید شاہ کہتے بھی ہیں کہ اے ڈی خواجہ اچھے افسر ہیں مگر انہیں ہٹانا سندھ حکومت کے اختیار میں ہے۔ گویا یہ ساری بات اختیار کے نشے کی ہے۔ اچھا افسر کسی کو وارا نہیں کھاتا۔ سب اس سے خوف کھاتے ہیں۔ چاہے کوئی بھی ہو اس کو کھل کر کام کرنے نہیں دیا جاتا۔ اسے معطل کر دیا جاتا ہے یا تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ یہ ہمارے فیوڈل مزاج حکمرانوں کی پرانی عادت ہے یہ نئی بات نہیں۔ معاملہ عدالت میں ہے تو سندھ حکومت انتظار کر لیتی۔ اگر عدالت آئی جی کو بحال رکھتی ہے تو اس سے ساری اسمبلی کی سبکی ہو گی۔ سیاسی میدان میں خانہ جنگی برپا کرنے کے بہت سے مواقع اور بھی ہیں۔ لگے رہو منا بھائی آئی جی نہ سہی مردم شماری وہ نہیں تو کراچی کی صفائی پر باہمی جدال و قتال کے موقعے ملتے رہیں گے۔ عدالتی فیصلہ تک آئی جی کے معاملے پر جنگ بندی توڑنا مناسب نہیں۔