قیام امن کا کریڈٹ
گورنر سندھ نے ایک بات کر دی اور ہر کوئی ان کے گلے پڑگیا، مگر انہوںنے کونسی غلط بات کہہ دی تھی، یہ کیسے غلط ہو گیا کہ کراچی میں قیام امن کا کریڈٹ سو فیصد نواز شریف کو جاتا ہے۔کیاا س دعوے کی مخالفت کرنے والے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کریڈٹ بھارتی را، یا اسرائیلی موساد یا امریکی سی آئی اے یا نیٹوکوجاتا ہے، یا کسی کا نام ہی لے دیں کہ مودی کو جاتا ہے، عبداللہ عبداللہ کو جاتا ہے یا پوٹن ہی کو جاتا ہے۔جتنی لمبی زبانیں استعمال ہو رہی ہیں، کسی روز یہ بھی کہہ دیں گی کہ پاکستان کے قیام کا کریڈٹ قائد اعظم کو نہیں جاتا، ویسے یہ ہرزہ سرائی کرنے والے بہت ہیں کہ پاکستان تو انگریز کی تقسیم کرو پالیسی کا نتیجہ تھا۔چلو یہ بھی کہہ دو کہ ایٹمی پروگرام کا کریڈٹ بھٹو کو نہیں جاتا، ضیا الحق کو نہیں جاتا اور دھماکوں کا کریڈٹ نواز شریف کو نہیں جاتا۔جو کچھ زبان میں آئے، اسے اگل دینے کا نام سچ نہیں ہے۔ بھلا بتائو ، یہ کس نے کہا تھا کہ گھاس کھائیں گے اور ایٹم بم بنائیں گے ۔ لاہور میں اسلامی کانفرنس کس نے بلائی تھی، سوچ کر کسی کا نام لے دو اور پاکستان کی پہلی موٹروے کا اعزاز بھی کسی محلے دار کو دے لو، یہ اعزاز نواز شریف سے کون چھین سکتا ہے، گورنر سندھ نے صرف یہ کہا ہے کہ اصل اعزاز اس کا ہے جس نے ایک سیاسی فیصلہ کیا، کیا سوات کاآپریشن جنرل کیانی نے نہیں کیا مگر کیا یہ زرداری نے کریڈٹ نہیں لیا کہ سیاسی حکومت نے اس آپریشن کو عوامی اونر شپ دی ا ور یہ چند ماہ میں کامیاب ہو گیا۔
ضرب عضب کے ساتھ خرابی کیا ہوئی۔ مجھ سے بڑھ کر اس کا مداح کون تھا مگر جب میں یہ لکھ رہا تھا کہ جنرل راحیل نے حکومت سے بالا بالا اس آپریشن کا حکم دے دیا تو تب حکومت اس قدر سہمی ہوئی تھی کہ یہ نہ کہہ سکی کہ بھلے مانسو! اس کا فیصلہ تو حکومت نے کیا، اسکی تاریخ تک حکومت نے مقرر کی اورجب دیکھا کہ اس تاریخ کو تو افغان الیکشن ہو گا تو یہ تاریخ آگے کر دی۔یہ انکشاف چودھری نثار نے اب آکر کیا ہے مگر جنرل راحیل نے دو سال تک اس تاثر کو عام ہونے دیا کہ ضرب عضب تو انہی کی سوچ اور عمل کا نتیجہ ہے۔ جب ملک میں طالبان سے مذاکرات کے لئے کمیٹیاں دوڑ بھاگ کر رہی تھیں تواس وقت بھی یہ تاثر عام ہونے دیا گیا کہ حکومت دہشت گردوں کے خلاف آپریشن نہیں کرنا چاہتی۔جبکہ بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ یہ مذاکرات خود جنرل راحیل کے ساتھ مشورے سے ہورہے تھے ۔ ایسانہ ہوتا تو وہ جو ہیلی کاپٹر آ جا رہے تھے، وہ بھی تو فوج ہی نے دیئے تھے اور ان کی سیکورٹی کا بند و بست بھی فوج ہی نے کیا تھا۔اصل مصیبت یہ ہے کہ ضرب عضب کے بعد کراچی آپریشن کی کامیابی کا سہرا بھی جب راحیل کے سر باندھا گیا تو تب یہ باتیں چلیں کہ فوج ضرور شجاعت، بہادری اوور قربانی کا مظاہرہ کر رہی ہے ، رینجرز جان مار رہے ہیں مگر فوج اور رینجرز ریاست پاکستان ہی کے ادارے تھے ا ور ایک منتخب حکومت کی ہدایت پر ہی عمل پیرا تھے تو پھر وہ اکیلے سارا کریڈٹ کیسے لے سکتے تھے۔اگراس ملک میں اسکولوں کا نظام اچھا ہو جائے، ہسپتالوںمیں بہترین علاج ہو نے لگے توکیا کوئی استاد یا ڈاکٹر اکیلا اس کا کریڈٹ لے سکتا ہے۔یہ ادارے حکومت کی پشت پناہی اور گائیڈنس کے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھا سکتے ۔فوج ضرور ایک منظم ادارہ ہے مگر خدا را ، ایسی فضا مت بنائیں کہ فوج ایک منتخب حکومت پرحاوی نظر آنے لگے۔ یا مقابل کھڑی ہو جائے۔
یہی صورت حال خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر ؓ کے دور میںا سوقت پیدا ہوئی جب حضرت خالدبن ولیدؓ کی کمان میں اسلامی فوج فتوحات کا ڈھیر لگا رہی تھی، تب یہ بات پھیلنے لگی کہ فتح تو صرف سپاہ سالار کی وجہ سے ملتی ہے، خلیفہ دوم نے عین حالت جنگ میں فوج کی کمان تبدیل کر دی اور اللہ کا کرم یہ ہوا کہ فتوحات کا سلسلہ پہلے کی طرح چلتا رہا اور خالدبن ولیدؓ ایک عام سپاہی کی طرح نئے سپاہ سالار کی کمان میں داد شجاعت دیتے رہے، انہوںنے خلیفہ ؓ کے حکم کے خلاف چوں تک نہیں کی۔ نتیجہ یہ ہے کہ تاریخ میں حضرت عمر ؓ ہی کے دور کو فتوحات کے لحاظ سے زریںالفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔
میرے خیال میں اس بحث کو طول نہیں دینا چاہئے کہ کونسا کریڈٹ کس کے سر، اصولی طور پر ایک منتخب حکومت کے فیصلے کے بغیر کوئی اقدام نہیں کیاجاسکتا اور عملی طور پر اس اقدام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کا سہراا س ادارے کے سر ہوتا ہے جو اس کے لئے جانفشانی سے کام کرتا ہے، فوج، رینجرز، ایف سی ، خاصہ داران، پولیس حتی کہ اعتزاز جیسے بہادر طالب علم بھی اس اعزاز میں شریک ہیں جنہوں نے دہشت گردی کا کچومر نکالااور قوم کو امن کا تحفہ دیا، فاٹا تو تاریخی لحاظ سے ایک اسلحے کا ڈھیر بنا رہتا ہے مگر کراچی کو اسلحے کے شکنجے میں جانے دینا قومی خود کشی کے مترادف ہوتا، ا س شہر کو درست کرنے کے لئے ماضی میں بھی کئی آپریشن ہوئے مگر حالیہ آپریشن کے نتائج دیر پا ثابت ہوئے ہیںا ور مافیا کو بھی جڑ سے نکال پھینکا گیا ہے ، یہ کہنا تو درست نہیںہو گا کہ کراچی اب مکمل طور پر صاف ہو گیا ہے کیونکہ بھتہ خور اور قاتل زیر زمین چلے گئے ہیں اور کسی وقت بھی حکومت کے عزم کی کمزوری کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں یا رینجرزکی واپسی پر شیر بن سکتے ہیں، اس لئے گورنر سندھ کا یہ کہنا درست ہے کہ رینجرز کو طویل عرصے تک کاروائیاں جاری رکھنا ہوں گی ۔
رہا جنرل راحیل شریف کا اعزاز تو انہوں نے جو کردارا دا کیا، اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، ان کو قوم نے دل کھول کر داد دی، مگر ایک فرد بہر حال ادارہ نہیں ہوتا، ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط بنانا ہے، حکومت وقت کی رٹ کی بالا دستی کو یقینی بنانا ہے اور پاکستان کو امن کاگہواراہ بنا کر دم لینا ہے،ا سکے لئے سبھی کو ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھنا ہو گا، ایک ساتھ چلنا ہو گا۔