• news
  • image

ماڈل ٹائون سرگودھا شہبازشریف بیورو کریسی اور عدالت عالیہ

پرانا محاورہ ہے ’’رسی جل گئی ‘ پر بل نہیں گیا‘‘ سرگودھا امپرومنٹ ٹرسٹ (جو شاید کچھ عرصہ کے بعد سرگودھا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا روپ دھار لے)بھی اسی صورتحال سے دوچار ہے۔ ٹرسٹ نے ماضی میں کچھ سکیمیں بنائیں جیسی بھی تھیں اب ان میں خلق خدا آباد ہے مگر اس کی آخری سکیم‘ ماڈل ٹائون سرگودھا ٹرسٹ کو بھی اور سکیم میں ’’سرکاری‘‘ سمجھ کر پلاٹوں کی رقم جمع کروانے والوں کو بھی لے بیٹھی۔ تقریباً 1992ء سے لیکر آج تک ماڈل ٹائون کے الاٹی جمع پونجی جمع کروانے کے باوجود ماڈل ٹائون کے آفیشنل انچارج (کبھی ڈپٹی کمشنر، کبھی تحصیل ناظم اور کبھی ڈسٹرکٹ کوآرڈینیٹرز) صاحبان کے ہاتھوں ذلیل وخوار ہو رہے ہیں۔ سرگودھا امپرومنٹ ٹرسٹ کے بعض بدعنوان اہلکاروں کے ماضی میں کروڑوں روپے کے گھپلوں پر اینٹی کرپشن‘ نیب اور دوسرے تادیبی اداروں کے ہاتھوں درگت بھی بنتی رہی اور اسکے انچارج صاحبان اعلیٰ سطح پر جواب دہی کے دوران شرمندہ بھی ہوتے رہے مگر ڈھاک کے وہی تین پات‘ معاملہ جوں کا توں‘ ٹال مٹول۔ میڈیا چیخ رہا ہے‘ برسوں بیت چکے ہیں متاثرین کی طرف سے کچھ نمائندہ افراد نے محتسب اعلیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ انصاف کے اس دروازے نے سرگودھا امپرومنٹ ٹرسٹ کو حکم دیا کہ الاٹیوں کو پلاٹ دو، گورنر پنجاب نے متاثرین کے حق میں فیصلہ دیا۔ آخر میں پنجاب کی سب سے بڑی عدالت عالیہ لاہور نے تفصیلی سماعت کے بعد سرگودھا امپرومنٹ ٹرسٹ اور ماڈل ٹائون کی انتظامیہ کو حکم دیا مگر حیرت کی بات ہے کہ پاکستان بھر میں اور بیرون ملک سخت اور انصاف پسند وزیراعلیٰ کی شہرت رکھنے والے میاں شہبازشریف کے ہوتے ہوئے صوبہ پنجاب انتظامیہ کے ایک چھوٹے سے کل پرزے کی طرف سے برسوں پہلے کے الاٹیوں کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل جاری ہے۔ عجیب بات ہے کہ اعلیٰ ترین عدالتوں میں جھوٹ بول کر معاملے کو ٹالنے کی کوشش کی جارہی ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب موجودہ چیف جسٹس سید منصورعلی شاہ اور تمام فاضل جسٹس صاحبان انصاف کی جلد فراہمی کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کے ساتھ رات دن کام کررہے ہیں‘ ہم وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کی توجہ اس خصوصی معاملے کی طرف دلانا چاہتے ہیں کیونکہ اگر ان کے صوبے کی انتظامیہ کا کوئی فرد کبھی اپیلوں کے بہانے، کبھی مصروفیت کے بہانے، کبھی ٹرسٹ کے چیئرمین کی تقرری کے بہانے ہزاروں الاٹیوں کے معاملے کو محتسب اعلیٰ، گورنر پنجاب اور اس کے بعد ہائیکورٹ جیسی اعلیٰ عدالتوں کے احکامات کے باوجود ٹالنے کے حربے استعمال کرتا ہے اور اس کے حربے فاضل جج صاحبان کے سامنے بے نقاب ہوتے رہتے ہیں تو عام لوگوں کی بددعائوں کا ہدف صوبہ کا چیف ایگزیکٹو بھی بنتا ہے اور بدنامی میاں صاحب اور مسلم لیگ(ن) کی بھی ہوتی ہے جس کو آئندہ برس انتخابات کے کڑے امتحان کا بھی سامنا ہے۔ اس وقت بھی صورتحال یہ ہے کہ 20برس سے سرکاری سطح پر شروع ہونے والی سکیم ماڈل ٹائون میں زمین بے آباد پڑی ہے۔ فاضل عدالت میں بتایا گیا کہ پانی کے پائپ بچھے ہیں جن میں پانی نہیں، گیس کے پائپ بچھے ہیں جن میں گیس نہیں، سڑکوں کے صرف آثار/ نشانات محسوس کیے جاسکتے ہیں، نہ کوئی گھر ہے نہ در۔ علاقے میں نجی سکیمیں کب کی آباد ہوچکیں‘ پنجاب حکومت کے ’’آشیانہ‘‘ کا بھی چرچا ہے مگر ’’ماڈل ٹائون‘‘ صرف نام کی حد تک ماڈل اور ٹائون ہے۔ اصولی طور پر تو بہت پہلے ضلع سرگودھا کے نئے چیف ایگزیکٹو کو خود آگے آنا چاہیے تھا۔ صوبے کے چیف ایگزیکٹو کو بھی اگر ضلع کی سطح پر دیکھنا پڑے تو مقامی انتظامیہ کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ ویسے بھی سرگودھا امپرومنٹ ٹرسٹ کے ماضی کے چند بدعنوان عناصر کی کرپشن کا طوق ضلع کے افسران کیوں اپنے گلے میں لٹکانا چاہتے ہیں۔ وہ ماضی کے کرپٹ لوگوں کا قبروں تک پیچھا کرکے اور الاٹی حضرات کو ترقیاتی کام کروا کر پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے ذریعے خود بھی وزیراعلیٰ کے سامنے سرخرو ہوسکتے ہیں اور اللہ کے ہاں بھی اجر حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ جو ایک ضلعی افسروں کی طرف سے ماڈل ٹائون کی مصیبت آنیوالی افسر کے گلے میں ڈال کر کسی اور جگہ ٹرانسفر ہو جانے کی روایت چلی آرہی ہے اسے اب ختم ہونا چاہیے اور جو اس ضمن میں ٹھوس اقدام میں پہل کریگا وہی اپنے سکون‘ پیشہ ورانہ فرائض اور حکومت سے مخلص ہوگا۔ ویسے بھی اب معاملہ وہاں ہے جہاں زیادہ دیر تک آنکھوں میں دھول جھونکنا شاید ممکن نہ ہو۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن