بینظیر کی مارشل لاء کیخلاف جدوجہد کا آغاز
آج کا دن 10 اپریل 1986ء کی یاد تازہ کرتا ہے۔ آ ج کے دن دختر مشرق جناب ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی وارث محترمہ بے نظیر بھٹو نے لاہور کی سرزمین پر جب قدم رکھا تو لاکھوں لوگوں نے ان کا استقبال کر کے مارشل لاء کے خلاف نفرت کا اظہار کیا۔ اس کاروان میں ہر طبقے کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ پارٹی کے کارکن اور بچے، بوڑھے اور خواتین نے شرکت کر کے ضیاالحق کے ساتھ نفرت کا اظہار کیا مجھے یاد ہے کہ جب جہانگیر بدر مرحوم نے مجھے بتایا جو اس وقت پنجاب کے صدر تھے کہ محترمہ پاکستان آنے کے لئے بے چین ہیں اور ان کا استقبال تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھا جانا چاہئے اور پارٹی کے ہر کارکن نے ان کے استقبال کی تیاریاں شروع کردیں۔ اس رات جس دن محترمہ پاکستان تشریف لائیں تو ضیاالحق سکون کی نیند نہ سو سکے طویل مارشل لاء کے خلاف طویل جدوجہد اپنی مثال آپ تھی۔ ائرپورٹ سے لیکر مینار پاکستان تک لوگوں کا ہجوم تھا اور ہر جگہ پر پھولوں کی بارش ہو رہی تھی یا اللہ یا رسول بے نظیر بے قصور کے نعرے ہر زبان پر عام تھے۔ محترمہ جلسہ گاہ میں پہنچی تو خالد جان کی وہ نظم میں باغی ہوں میں باغی ہوں جلسہ گاہ میں لوگوں میں اتنا جوش تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو چاہتیں تو گورنر ہائوس+ اسمبلی ہال، ٹیلی ویژن سٹیشن+ ریڈیو اسٹیشن پر قبضہ ہو جاتا مگر محترمہ کی جمہوری سوچ نے اسے آئین پسند اقدام میں رکھا۔ محترمہ کی سوچ جمہوری طریقے سے اور عوام کے ووٹ کے ذریعے ہی اقدار میں آنا تھا محترمہ نے پاکستان میں جلسے اور جلوسوں کی وجہ سے حکومت کو مجبور کردیا کہ پاکستان میں واحد راستہ شفاف انتخابات ہی ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ پی پی پی کو ختم کردیا گیا ہے وہ احمقوں کی جنت میں رہتے تھے۔ پی پی پی کے کارکنوں کا حوصلہ مارشل لا کا تشدد نہ توڑ سکا۔ ان کے لئے ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان کو فلاحی ملک بنانے کے لئے پر عزم تھے۔ 10 اپریل 1986 کے جلسے نے ثابت کردیا تھا کہ پاکستان کی سب سے بڑی جماعت پی پی پی ہے اور محترمہ بے نظیر بھٹو چاروں صوبوں کی زنجیر ہے۔ جس طرح انہوں نے جمہوریت کے لئے جدوجہد کی وہ اپنی مثال آپ ہے اور ان کی آمد کے بعد جونیجو کابینہ کے آدھے سے زیادہ وزیر پی پی پی میں شمولیت کے لئے بے چین تھے۔ ڈکٹیٹر کی چھتری کے نیچے کوئی جمہوری عمل کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے جب 1986ء میں الیکشن ہوئے تو پی پی پی کو اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی۔ الیکشن جیتنے کے باوجود ان کو اقتدا میں آنے سے روکنے کے لئے بھی حربے استعمال کئے گئے 88 کے الیکشن میں بھی دھاندلی ہوئی تھی۔ لیکن محترمہ نے وہ الیکشن قبول کئے تاکہ ملک میں افراتفری نہ پھیلے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے 80 میں سندھ کا دورہ کیا تو وہاں پر لسانی جماعتوں کی زبان پر یہ بات تھی جئے سندھ، بلوچستان+ بھاڑ میں جائے پاکستان ان تحریکوں کو ختم کرنے کے لئے محترمہ نے اقتدار میں آنے کا فیصلہ کیا محترمہ نے اقتدار میں آکر جس طرح سے ملک کو مضبوط کیا۔ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انہوں نے خواتین کے حقوق کے لئے جدوجہد کی اور ان کے لئے پولیس سٹیشن ویمن بنک قائم کئے خواتین کی سیٹوں میں اضافہ ویمن یونیورسٹی کا قیام اور جب انہیں پتہ چلا کہ پاکستان کے پاس ایٹمی ٹیکنالوجی تو ہے مگر میزائل ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ تو انہوں نے فوری کوریا سے معاہدہ کر کے پاکستان کو میزائل ٹیکنالوجی فراہم کی۔ 10 اپریل کے جلسے کو کامیاب کرنے کے لئے مختلف کمیٹیوں کی تشکیل ہوئی۔ جن کی کوششوں سے جلسہ کامیاب رہا۔ آج پی پی پی کو عہد کرنا چاہئے بھٹو صاحب کی دی ہوئی Idelogy محترمہ کے ویژن کے مطابق بلاول بھٹو کے ہاتھ مضبوط کر کے پاکستان کو ایک جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
آج بلاول بھٹو زرداری، پنجاب میں بیٹھ کر جمہوری ڈکٹیٹر سے پنجاب آزاد کرانے آئے ہیں۔ محترمہ نے کہا تھا۔ کہ آمر نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ ہمیں ملک کی تعمیر کے لئے ایک ایک اینٹ جوڑنی ہو گی اس میں پوری قوم کو حصہ لینا ہو گا۔
ہم کو آمریت اور ان کی باقیات کا خاتمہ کرنا ہوگا جس نے ملک کو تباہ کر دیا اگر جمہوریت دشمن Dictoer شپ کے حامی آج بھی سمجھتے ہیں تو وہ احمق ہیں ایک ایک اینٹ جوڑنے کے لئے قومی ایشوز پر سب کو اکٹھا کر کے قومی اتحاد قائم کرنا ہے اور پاکستان کی ترقی خوشحالی اور استقامت ہی ہمارا مستقبل ہے آج کا سیاسی آمر اپنی بادشاہت کے لئے۔ قوم کو تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ آپ ہم مفاہمت کی پالیسی پر گامزان ہیں پی پی پی عوام کی ترقی خوشحالی فلاح وبہبود اور ملک سلامتی کے لئے پوری طرح سرگرم عمل ہیں۔ آج محترمہ کا بیٹا بلاول بھٹو زرداری محترمہ کی دی ہوئی تربیت کے مطابق ملک کی خوشحالی اور ترقی کے لئے گامزن ہے ہمیں عہد کرنا چاہئے کہ پارٹی کے اندر اور باہر جو پارٹی کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ان کے آگے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہو جانا چاہئے۔