صد سالہ تقریبات … جمعیت علماء ہند کی یا جے یو آئی (ایف) کی؟
گزشتہ دنوں قومی روزناموں میں مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام کی صد سالہ تقریبات کا بڑا چرچا رہا۔ لیکن حیرت ہے کہ کسی نے مولانا فضل الرحمن سے یہ وضاحت نہیں کروائی کہ یہ یکایک جے یو آئی کو سو سال کیسے ہو گئے؟ پاکستان کو قائم ہوئے تو اس سال ماشاء اللہ 70 سال پورے ہو جائیں گے اور قوم اپنا اکہترواں یوم آزادی منائے گی، لیکن یہ جمعیت العلماء اسلام کو سو سال کیسے ہو گئے؟ تاریخ کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ جمعیت العلماء اسلام اس واحد عالم دین نے 1945ء میں قائم کی تھی جن کے تمام ہم مسلک علماء یعنی علماء دیوبند مشرکین ہند کی نمائندہ جماعت آل انڈیا کانگریس کے اتحادی اور یک جان و دو قالب تھے۔ اور ان کی جماعت کا نام جمعیت علماء ہند تھا۔ علامہ شبیر احمد عثمانی واحد دیوبندی عالم تھے جنہوں نے جمعیت العلماء اسلام قائم کی اور سواد اعظم علماء حق کی آواز میں آواز ملائی اور تحریک پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا۔ ہندو پرست علماء یعنی جملہ علماء دیوبند کو یہ حمایت ایک آنکھ نہ بھائی اور گاندھی اور نہرو جیسے دشمنان اسلام کے ان حمایتیوں نے علامہ شبیر احمد عثمانی کو مغلظ خطوط سے نوازا جس کی تفصیل ان کی کتاب ’’مکالۃ الصدرین‘‘ میں موجود ہے۔ بہرکیف برصغیر کی تاریخ گواہ ہے کہ حق و باطل کے اس معرکہ میں حق غالب آیا۔ مسلمانان برصغیر نے حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں کفار و مشرکین ہند کی چالوں کو ناکام بنا کر مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام ممکن بنایا۔ جمعیت العلماء اسلام علامہ شبیر احمد عثمانی مرحوم و مغفور نے قائم کی تھی۔ جو قائداعظم محمد علی جناح کے معتقد اور انہیں اپنا قائد تسلیم کرتے تھے۔ تاریخ تحریک پاکستان کے قارئین جانتے ہیں کہ آل انڈیا کانگریس کی منظور نظر ہونے کے باعث مسلمانانِ برصغیر کو دارالعلوم دیوبند سے ہمیشہ بادِ صر صر کے جھونکے ہی آتے رہے، کانگریسی وزارتوں (1937-39) کے دور میں بھی توحید و سنت کے داعی مشرکین ہند کے اتحادی رہے۔ کانگریسی وزارتوں کے دوران جب بندے ماترم جیسے مشرکانہ ہندی ترانے کو گانا تمام تعلیمی اداروں میں لازم قرار پایا تب بھی جمعیت علماء ہند کانگریس سے بغلگیر رہی۔ اسی دور میں ودیا مندر سکیم اور واردھا سکیم جیسی ہندووآنہ سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں کی گئیں تب بھی جمعیت علماء ہند مشرکین ہند کی جماعت آل انڈیا کانگریس کی ہمنشین رہی۔ حیرت کی بات ہے کہ کانگریسی وزارتوں کے دور میں بھی اسلام کا نام لینے والی جمعیت علما ہند کو عقل نہ آئی کہ مشرکین مکہ اور مشرکین ہند میں کوئی فرق نہیں۔ مکہ کے مشرک 360 بتوں کے پجاری تھے تو مشرکین ہند کے اصنام تو اس سے کہیں زائد تھے اور ہیں۔ راقم کے پاس جمعیت العلماء ہند کے مولویوں کے ان فتوؤں کی کاپیاں موجود ہیں جو انہوں نے قیام پاکستان کی مخالفت میں دیئے۔ علامہ حسین احمد نے نومبر 1945ء میں فتویٰ دیا۔ جبکہ مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی کا فتویٰ بھی موجود ہے۔ بات یہیں پر ختم ہو جاتی تو اچھا تھا۔ شو مئی قسمت علامہ شبیر احمد عثمانی کے الگ ہونے کے بعد کانگریسی علماء کا جمعیت علماء اسلام پر قبضہ ہو گیا۔ مولانا مفتی محمود کا یہ بیان آج بھی پاکستان کی قومی اسمبلی کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ اللہ کا شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔ جبکہ مولانا عبدالغفور حیدری کو تو سینٹ کا ڈپٹی چیئرمین بننے کے بعد یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ بابائے قوم حضرت قائداعظم کے مزار پر جا کر فاتحہ ہی پڑھ لیتے۔ آخر نریندر مودی کے ہمدرد اور اتحادی جو ٹھہرے۔ مولانا فضل الرحمان کو فاٹا اور پختون روایات کا بڑا خیال رہتا ہے۔ تو ہمیں یقیناً پاکستانی روایات کا پاس رہتا ہے۔ مملکت خداداد پاکستان میں جب بھی کوئی وفاقی یا صوبائی عہدوں پر فائز ہوتا ہے وہ بابائے قوم حضرت قائداعظم کے مزار پر حاضر ہو کر فاتحہ ضرور پڑھتا ہے اور انہیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔ لیکن کیا کیجئے کہ اس کی توفیق بھی قسمت والوں کو نصیب ہوتی ہے۔
جمعیت علمائے ہند کی ہرزہ سرائی کا سلسلہ قیام پاکستان کے بعد بھی جاری رہا۔ بھارتی علامہ اسد مدنی کے خیالات جلیلہ سے ایک عالم واقف ہے جنہوں نے قائداعظم کے مسلمان ہونے سے ہی انکار کر دیا تھا۔ ابھی تازہ واردات ان علمائے دارالعلوم دیوبند کی حریت پسند کشمیریوں کے ساتھ سامنے آئی ہے۔ فرمایا ہے مسئلہ کشمیر کا حل بھارتی آئین کے اندر ہی تلاش کیا جائے جبکہ گزشتہ دنوں بھارتی آرمی چیف اور بعد ازاں بھارتی وزارتِ دفاع کے اعلیٰ افسروں کے ایک خاصے بڑے وفد کا دورہ افغانستان اس بات کے اشارے ہیں کہ مشرکین ہند اور منافقین افغانستان کا گٹھ جوڑ مضبوط ہو رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج تحریک حریت کو کچلنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ ایسے میں پاکستان اور اسلام دشمن بھارت سے دیوبند سے علماء کے بھیس میں جانے کتنے ہی بھارتی ایجنٹ پاکستان آئیں۔ مولانا فضل الرحمن سے وضاحت لینی چاہیے کہ وہ کس جماعت کی صد سالہ تقریبات منا رہے ہیں اگر یہ صد سالہ تقریبات جمعیت علماء ہند کی ہیں تو اس پاکستان دشمن جماعت کی صد سالہ تقریبات پاکستان میں منانا کیا معنی؟ رہی جمعیت علماء اسلام تو اس کی تقریبات تو 2045ء میں ہی منائی جا سکتی ہیں۔ 2017ء میں اس کی صد سالہ تقریبات کا اہتمام سمجھ سے باہر ہے؟ پاکستان کے حالات کے موجودہ تناظر میں اس طرح کی سرگرمیوں کی کھلی چھوٹ ہماری اس قومی سلامتی کے منافی ہے۔