سب سے پہلے پاکستان
اسلامی دنیا کو پاکستان پر بھروسہ۔ امام کعبہ، مذہبی رہنما اسلام کے خلاف پراپیگنڈہ زائل کریں، وزیراعظم۔ پاکستان بھروسہ کے لائق ہے تو واحد وجہ ایٹمی قوت ہے اور دنیا کی بہترین فوج کی موجودگی۔ ہر دو کا وجود جہاں اہل اسلام کے لئے باعث قوت ہے۔ سوچئے خود اہل پاکستان کے لئے کس قدر اہمیت، طمانیت کا درجہ رکھتا ہے۔ عوام کا اپنی فوج سے والہانہ پن چھپائے نہیں چھپتا۔ عقیدت، محبت کے مظاہر کھلے عام دیکھنے کو ملتے ہیں۔
قارئین! جب وابستگی امید کی آخری مگر مثبت کرن تک جا پہنچے تو وہاں توقعات، امیدیں، آس کا دائرہ بھی بہت اوپر تک چلا جاتا ہے۔ عرصہ دراز سے بگڑتے ملکی حالات، سیاسی افراتفری اور انتظامی نااہلیت باعث عوام درست طور پر ’’اعلیٰ عدلیہ۔ پاک فوج‘‘ کی طرف دیکھنا شروع ہو گئے۔ کرپشن کے میگا سکینڈلز سامنے آنے کے بعد جو نت نئے تماشے اقرار جرم، ازاں بعد لاتعلقی کا اعلان، اثاثوں کی قبولیت اور اگلے ہی سانس میں انکار نے قوم کو حددرجہ ذہنی خلجان کا مریض بنا دیا۔ اب ’’ عدالتی فیصلہ‘‘ آج آنے کل آنے کی متوقع تاریخوں کے ساتھ رُت کبھی نہ بدلنے کی میڈیائی شرارتیں تقریباً مایوس کر دینے کو نہیں کہ اُمید جاگی اور جاگی بھی اُس طرف سے جن کے دم سے پورے وطن کی سانسیں چل رہی ہیں۔
’’ہر پاکستانی کی طرح فوج کو انصاف اور میرٹ پر مبنی فیصلے کا انتظار ہے۔ فوج پاکستانی سماج کا ایک مرکزی، جڑا ہوا لازمی حصہ ہے۔ ہر جوان، افسر کسی کا بیٹا، کسی کا باپ، خاوند ہے۔ وہ بھی اِسی طرح سوچتے ہیں جیسا عام پاکستانی۔ کھانے پینے سے لے کر رہنے سہنے، اوڑھنے، پہننے کا انداز سبھی کچھ یکساں ہے۔ اگر کچھ مشکل ہے تو وہ یہ ہے ہر طرح کے نامساعد حالات، دشواری کے باوجود جانوں پر کھیلنے کے باوجود کچھ حلقوں کے ناروا، غیرمناسب، متعصب رویئے، عزائم، اِن کے علاوہ فوج کو کوئی چیز پریشان نہیں کرتی۔ شدید موسموں کے مصائب بھی گھبراہٹ نہیں پیدا کرتے۔ ہر شخص مختلف ذہن رکھتا ہے۔ سوچ کا مالک ہے۔ ذہن میں مثبت کی بجائے منفی سوچوں، وسوسوں کا زیادہ راج ہے اِس لئے دعا ہے کہ انصاف اور میرٹ وہ نہ ہو جو ’’72 سالوں‘‘ سے قوت و اختیار کے مراکز میں رائج ہے۔ ابھی بھی آنکھوں میں ’’آرمی چیف‘‘ کا بیان تازہ ہے۔ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کوئی بھی فرد ادارہ بعد میں۔ فوج ملکی سلامتی کے لئے کردار ادا کرتی رہے گی۔ جنگ ہو یا ’’آپریشن ردالفساد‘‘ ہر جگہ جانفشانی دکھائی دی۔ سیاسی یا مالی، مجرمانہ کرپشن، بہت سوں واقعات میں انصاف کا نظام رائج ہونے کی توقعات پیدا ہوئیں۔ مکرم اداروں نے ثبوت اکٹھے کئے تھے اور کرتے ہیں مگر ازاں بعد چھوڑ دیا جاتا ہے ناکافی شہادتوں کا لاحقہ لگا کر ’’اربوں روپے‘‘ کھانے والے اِس طرح چھوڑے جاتے رہے تو یہ ملک کیسے چلے گا؟ وسائل نہ رہے تو پھر زمین پر قبضہ کیسے برقرار رکھا جا سکے گا۔ اداروں کی مضبوطی اور قانون کا یکساں اطلاق بے حد ضروری ہے۔
پہلی مرتبہ نہیں۔ سینکڑوں مواقع گواہ ہیں پہلے اور موجودہ قابلِ احترام چیف جسٹس نے کرپشن، اقرباپروری کے خاتمہ پر زور دیا۔ منظور نظر افراد کی تقرری گڈگورننس نہ ہونے کی بنا پر ہے۔ ’’چیف جسٹس پاکستان‘‘ نے بجا ارشاد فرمایا کہ حکومت کو قانون کے تابع ہونا چاہیے۔ ہمارا یقین ہے کہ آزاد، مؤثر عدلیہ کی موجودگی اور بنیادی اہمیت کے حامل اداروں کی مؤثر فعالیت کے بغیر قانون کی حکمرانی ممکن نہیں اور خوشی ہے کہ اِس سمت سفر جاری ہے۔
کچھ عرصہ سے ’’دو آئین‘‘ خصوصی طور پر زیرمطالعہ ہیں جب بھی غم شدت اختیار کرتا ہے تو ’’اللہ غفور الرحیم‘‘ کی صفاتِ … والے ناموں اور قرآن مجید کا سہارا لیتے ہیں جو حقیقتاً نجات کا ابدی آئین ہے اور جب پاکستان اور اداروں کے متعلق بہتری کا سوچا تب ملکی آئین کو گہرائی سے پڑھ کر جانا کہ پابندی کرنے میں ہی ملک، اداروں کی فلاح، ترقی ہے جس طرح دنیا، آخرت سنوارنے، ہدایت واسطے ’’قرآن مجید‘‘ نازل فرمایا گیا۔ انسانی زندگی ہو یا سماجی، ملکی ادارے، ہر دو کی بھلائی۔ سلامتی صرف اور صرف نافذ کردہ آئین، طے کردہ قوانین کے ماننے میں مضمر ہے۔ کردار کی بلندی، تقریروں، دعوئوں پر نہیں، عمل میں ہے۔ قول، فعل سے پیروی خلوص کا اظہار ہے نہ کہ خود کو پارسا ثابت کرنے کی باتیں۔ انسان ذاتی گھر میں ہو یا سماجی ادارے کا حصہ صرف نیک نیت ہونا چاہیے۔ نیت احترام بخشتی ہے نہ کہ ادارے پر قبضہ کے لئے چھپ کر سازشیں۔ ہر دو کبھی نہ کبھی فاش ضرور ہوتی ہیں۔ آج اعلیٰ عدلیہ اور فوج احترام کے جس لیول پر فائز ہیں وہ اسی کا ثبوت ہے اِس میں شک نہیں کہ سبھی ادارے قانون کی پابندی کا حصار نہیں توڑ سکتے۔ ہر فیصلہ (چاہے ثبوت ہوں) قانونی حدود کا پابند ہے تو کسی معاملہ، مقدمہ میں اگر شواہد کمزور ہوں، شہادتیں ناقص ہوں تو تب بھی اِس ’’آئین پاکستان‘‘ میں کرپٹ لوگوں کے خلاف تادیبی کاروائی کی متعلقہ دفعات شامل ہیں۔ بدعنوانی کے خلاف ایکشن لینے کا طریقہ کار موجود ہے تو انہی دفعات پر ہم سب کو قانون کا تقدس ملحوظ رکھنا چاہیے۔ ’’اعلیٰ عدلیہ‘‘ کا فرمان تھا کہ ماتحت عدالتیں سرکار کی مداح بن گئی ہیں۔ جس کیس میں مدعی سرکار ہو تو فیصلہ مدعی کے حق میں آتا ہے۔ اِس عمل کو بھی حکومت اداروں کے ساتھ مشاورت سے طے کر سکتی ہے۔ قوم انتشار نہیں، امن کی خواہاں ہے۔ محفوظ زندگی، یقینی روزگار کی فراہمی، خوشحال کاروبار، مطمئن اذہان، کوئی لمبا چوڑا منشور نہیں صرف چند خواہشات ہیں کہ قانون کا یکساں نفاذ۔ ہماری درخواست ہے کہ تفتیشی عمل کو کرپشن سے ضرور پاک کیا جائے۔ مکمل تیار کے بغیر پکڑنا مناسب نہیں اور جب ثبوت موجود ہوں تو چھوڑنا انتہائی نامناسب چونکہ قوتِ نافذہ حکومت کے پاس ہے تو اِس ضمن میں بھی اشتراک عمل بہت بڑی خیر، بہتری کا موجب بن سکتا ہے۔