مریخ کی خلائی مخلوق اور میاں شہبازشریف
یہ پندنامہ انسانوں کے اکثر سننے میں آیا۔ ’’قناعت کرواے لوگو، قناعت بڑی چیز دنیا میں ہے۔ قناعت سے بڑھ کر کوئی شے نہیں، لیکن پانچویں صدی میں ایرانی نثراد مزدک نے بہت مختلف بات کی۔ تاریخ کے اس اولین انقلابی اشتراکی نے قناعت کو ایک اور زاوئیے سے دیکھا اور بیان کیا۔ وہ بولا! ’’امراء سے یہ کہنا کہ وہ اپنے محلات، ہزاروں غلاموں، کنیزوں، بیویوں، لذیذ ترین غذائوں پر، غلے سے بھرے گوداموں پر، گھوڑے سے پُراصطبلوں پر قناعت کریں اور ایک مزدور سے کہنا کہ وہ اپنے جسم کے چیتھڑوں پر، اپنے فاقوں پر قناعت کرے۔ کیا ان دونوں کا ایک ہی مطلب رکھا جا سکتا ہے؟ قناعت کے معنی یہ نہیں ہو سکتے۔ قناعت کا اصل مطلب یہی ممکن ہے کہ جب سب کے پاس ان کی حقیقی ضروریات کے مطابق چیزیں موجود ہوں تب وہ ایک دوسرے کی چیزیں نہ چھینیں۔ ہوس کا شکار نہ بنیں۔ یہ اصل قناعت ہے،،۔ قناعت کے بہت سے معنی آشکار ہوتے ہیں۔ منصفانہ شرح منافع بھی قناعت میں شمار ہوتا ہے۔ سید قطب شہید نے غیر منصفانہ شرح منافع کو سود کی طرح ہی حرام قرار دیا۔ لیکن ہمارے کسی بھی اخلاقیات سے عاری منافع خور تاجر اسے اللہ کا فضل قرار دیتے ہیں اور رہے ہمارے غریب بیچارے ، ہم ایسے ہیں کہ جیسے کسی کا خدا نہ ہو۔ اللہ بھلا کرے پاکستان ڈرگ لائیرز فورم کے صدر نور محمد مہر، پاکستان ینگ فارما سیوٹیکل ایسوسی ایشن کے چیئرمین ڈاکٹر محمد عثمان اور ڈاکٹر حنا شوکت کا، وہ ایک دن دیہاڑے ڈاکہ کی واردات ہمارے علم میں لائے ہیں ورنہ ہم کاہے کو جانتے تھے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں اڑھائی ہزار کا سٹنٹ ڈیڑھ سے دو لاکھ روپوں میں بیچا جا رہا ہے۔ وہ اطلاع دے رہے ہیں کہ جرمنی سے درآمد شدہ سٹنٹ کی پاکستان میں منافع سمیت قیمت 3500 روپے اور چین سے درآمد شدہ سٹنٹ کی قیمت 800 روپے ہے۔ سٹنٹ کی قیمتوں پر سپریم کورٹ کے سووموٹو ایکشن کے باوجود مریضوں کو کوئی ریلیف نہیں مل سکا۔ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود ابھی تک ریکارڈ پیش نہیں کیا جا سکا۔ وہ اس مَد میں دس کروڑ روپے روزانہ کی لوٹ مار کی نشاندھی کر رہے ہیں۔ اب سپریم کورٹ کرے بھی تو آخر کیا کرے۔ اس کا ایک انار سو بیمار والا معاملہ ہے۔ مردم شماری اس کے حکم پر ہوتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات اس کے حکم پر ہوتے ہیں۔ اب ہمارے بلدیاتی اداروں کو اختیارات بھی غالباً انہی کے حکم پر ہی دئیے جائیں گے۔ میاں نوازشریف فیملی مختلف وقفوں سے کم و بیش انیس بیس برسوں سے پاکستان میں حکمران ہے۔ ان کے ووٹر بھی موجود ہیں اور الیکشن بہتر Manage کرنے والے امیدوار بھی۔ الیکشن Manage کرنا ایک فن ہے۔ اس کا امیدواروں کی مالی اور اخلاقی کرپشن سے کم ہی تعلق ہوتا ہے۔ بار بار الیکشن جیتنے ہارنے کے بعدان امیدواروں نے اپنے لئے مضبوط حد بندیاں بنا لی ہیں۔ نسلی برتری اور برادری بندھن کو اور مضبوط کر دیا جاتا ہے۔ پھر عام لوگوں کے مخصوص مفادات ان لوگوں سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ لوگ انہیں ہر الیکشن میں ووٹ دینے اور ان کے پیچھے آنکھیں موند کر چلنے کے عادی ہو جاتے ہیں لیکن ابھی تک ن لیگ کی ساری کارکردگی محض یہ ہے کہ ایٹم بم بنا لینے کی صلاحیت رکھنے والا ملک اپنے شہریوں کی صفائی اور ستھرائی کیلئے ترکی اور چین کی کمپنیوں کا محتاج ہے۔ علامہ اقبال اپنی قوم کے کتنے مزاج شناس تھے؟ سنیے!
انتہا بھی اس کی ہے آخر خریدیں کب تلک
چھتریاں رومال مفلر پیرہن جاپان سے
اپنی غفلت کی یہی حالت اگر قائم رہی
آئیں گے غسال کابل سے کفن جاپان سے
میت کو غسل، کفن دفن کا مرحلہ خیر بعد میں آئے گا۔ ہمارے جیتے جی ہماری تعلیم، رہائش، صحت بارے گورنمنٹ اپنی تمام ذمہ داریوں سے ہاتھ کھینچ چکی ہے۔ گراں تعلیم ہمارے مڈل کلاس طبقے کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہے۔ ہسپتالوں کی پوری کہانی کرنل صدیق سالک نے ایک جملے میں یوں بیان کی تھی ’’ہماری انڈسٹری بیمار ہو گئی ہے اور یار لوگوں نے ہسپتال کو ہی انڈسٹری بنا لیا ہے‘‘۔ ہمارے ہاں رہائشی پلاٹوں کا مسئلہ بہت گھمبیر ہے۔ ایک سوال دل میں کھٹکتا رہتا ہے۔ کیا رہائشی پلاٹوں کا خام مال ہمیں امریکہ سے بذریعہ جہاز امپورٹ کرنا پڑتا ہے؟ اس سوال سے جڑا دوسرا سوال یوں ہے: کیا اس مہنگے خام مال کے باعث ہی رہائشی پلاٹ اتنے مہنگے ہوتے ہیں؟ پوش علاقوں میں پانچ مرلے کا رہائشی پلاٹ بھی اب مڈل کلاس طبقے کی قوت خرید سے باہر نکل چکا ہے۔ جیسے غلہ کی ذخیرہ اندوزی قانوناً جرم ہے، اسی طرح چھوٹے رہائشی پلاٹوں کے باب میں بھی قانون سازی بارے کچھ کرنا پڑے گا۔ چند مرلوں کا رہائشی پلاٹ غلہ کی طرح ہی ایک کنبہ کی ضرورت ہے۔ آج کا اہم سیاسی سوال یہی ہے کہ ان لوگوں کے زمین کی ملکیت میں حقوق کا تعین کیا جائے جن کے نام کاغذات مال کے خانہ ملکیت میں درج نہیں۔ اب یہ فیصلہ ہو جانا چاہیے کہ بے زمین، بے گھر لوگوں کے وطن عزیز کی مٹی پر حقوق کیا ہیں؟ ملک میں اداروں کو مضبوط کرنے کی بجائے شخصی عقل اور ذاتی فہم کی بنیاد پر اپنے عہد اقتدار کو مضبوط کیا جارہا ہے۔ ہمارے حکمران دنیا جہان کی زبانیں سمجھتے ہیں اور فر فر بولتے ہیں۔ نہیں سمجھتے تو اپنے عوام کی زبان نہیں سمجھتے۔ دروغ برگردن راوی: پچھلے دنوں امریکہ میں ایک اڑن طشتری میں سے خلائی مخلوق اتری۔ مریخ کے اس باشندے کی زبان سمجھنے سے سبھی قاصر تھے۔ جب بڑے بڑے ماہرین بھی عاجز آگئے تو ایک ’’سیانے‘‘ کے مشورے پر پاکستان کے میاں شہباز شریف کی خدمات حاصل کی گئیں۔ انہوں نے وہاں پہنچتے ہی اہل مریخ کی بولی ٹھولی میں پہلے اس سے خیریت دریافت کی پھر دیر تک دونوں کے درمیان گفتگو ہوتی رہی۔ کیا گفتگو ہوئی؟ جو بات ہم نے سنی نہیں وہ بالکل نہیں لکھیں گے۔ ہمیں اپنے قلم کی حرمت کا پورا پاس ہے۔ بہرحال سبھی میاں شہباز شریف کی اس غیرمعمولی استعداد پر حیران تھے۔ وہاں موجود سبھی لوگ اردو زبان کے محاورے کے مطابق اپنے دانتوں تلے اپنی اپنی انگلیاں داب کر رہ گئے۔ اب کتنے افسوس کی بات ہے کہ اربوں میل دور کے ایک سیارے کے باشندوں کی زبان سمجھ لینے والے ہمارے حکمران اپنے عوام کی زبان سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وہ قطعاً نہیں سمجھ رہے کہ ہمارے عوام کو پل، میٹرو، اورنج ٹرین کی بجائے روٹی، مکان، تعلیم، علاج معالجہ اور صاف پانی چاہیے۔ دہائی ہے میرے مولا دہائی ہے۔