کرکٹ بورڈ، وسیم اکرم اور فکسنگ سکینڈل
پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن میں سامنے آنیوالے سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں معطل کرکٹرز میں سے ایک کھلاڑی الزامات کو تسلیم کرنے کے بعد پابندی کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ شاہ زیب حسن، شرجیل خان اور خالد لطیف نے کرکٹ بورڈ کی طرف لگائے جانیوالے اکثر الزامات کی صحت سے انکار کیا ہے۔ شاہ زیب حسن نے ایک مرتبہ پھر موقف اختیار کیا ہے کہ انہوں نے نہ خود فکسنگ کی نہ کسی کو اکسایا البتہ بکیز کی طرف سے کی جانیوالی پیشکش سے بورڈ کو آگاہ کرنے میں تاخیر ضرور ہوئی۔ دوسری طرف ناصر جمشید کو اس کیس کا مرکزی کردار بتایا جا رہا ہے بورڈ کے ٹاپ آفیشلز نے ابتک ہر جگہ ناصر جمشید کو مرکزی کردار قرار دیا ہے اور تو اور ٹربیونل کے رکن توقیر ضیاء بھی اوپننگ بلے باز کو ہی اصل ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ناصر جمشید کی اہلیہ کا ایک ٹویٹ گذشتہ روز اخبارات میں شائع ہوا ہے جسکے مطابق وہ اپنے گھر میں ہی ہیں۔ واقفان حال یہ بھی بتاتے ہیں کہ بھی ہیں کہ ناصر جمشید نے براہ راست پاکستان کرکٹ بورڈ کے اینٹی کرپشن یونٹ کے افراد کو ملنے سے انکار کیا ہے دوسرے مرحلے میں وہ اپنے وکلا کے ذریعے کرکٹ بورڈ کے ساتھ اس معاملے پر آگے بڑھنے کے حوالے مشاورت کر رہے ہیں۔جہاں تک تعلق خالد لطیف اور شرجیل خان کا ہے دونوں کو ابتدا ہی میں معطل کرنے کے بعد واپس بھجوا دیا گیا تھا اس کے بعد دونوں کیطرف سے کچھ بیانات ضرور آئے جسمیں انہوں نے الزامات سے انکار کیا اور خود کو معصوم بھی کہا۔ آج تک شرجیل خان نے بیس لاکھ کے عوض دو ڈاٹ گیندیں کھیلنے کی خبر کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔ وہ الزامات سے تو انکار کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن کرکٹ بورڈ کی راہداریوں میں، اعلیٰ افسران کے کمروں اور اہم شخصیات کی نجی محفلوں میں شرجیل خان کے حوالے سے کوئی نرم گوشہ یا اچھی بات سننے کو نہیں ملتی۔ کرکٹ بورڈ کے اعلی افسر تو یہ بھی کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ "مال" اسی کے پاس ہے۔ مال سے مراد مال و دولت تو ہے ہی لیکن یہاں اسکا مطلب معلومات کا خزانہ سمجھا جائیگا۔ شرجیل خان کے ابتدائی بیان کے حوالے سے ایک اور خوفناک خبر بھی کرکٹ کے مقتدر حلقوں میں زیر بحث ہے۔ واقفان سپاٹ فکسنگ کیس بتاتے ہیں کہ شرجیل خان نے سکینڈل کی ابتدا میں اپنی ٹیم انتظامیہ میں شامل ایک سابق پاکستانی کرکٹر کا نام بھی لیا تھا۔ اگر یہ اطلاع سو فیصد درست اور شرجیل خان کا یہ بیان حقیقت ہے تو اس فکسنگ سکینڈل میں ایک مرتبہ پھر ماضی کے کرداروں کا ذکر سننے کو ملے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام آباد یونائیٹڈ کی انتظامیہ میں مشکوک کردار کے حامل افراد موجود ہیں اور وہ صرف ملکی ہی نہیں اسمیں غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ کرکٹ بورڈ ایک طرف کرپشن پر زیرو ٹالرینس کا دعوی کرتا ہے دوسری طرف مشکوک اور عبدالقادر کے بقول"داغی" کرکٹرز کو پاکستان سپر لیگ میں اہم عہدے ملنے پر کبوتر کیطرح آنکھیں بند کیے بیٹھا ہے۔ کوئی جنرل توقیر ضیائ سے ہی پوچھ لے کہ انہوں نے اپنے دور میں ایک نمایاں کھلاڑی کو ٹیم کا کپتان بنانے سے گریز کیوں کیا۔ کوئی برادرم چودھری جاوید الہی سے پوچھے کہ مانچسٹر کے ایک بڑے اور مہنگے ریسٹورنٹ میں کونسے پاکستانی کرکٹر کا حصہ ہے۔ نوے کی دہائی میں ہونیوالی میچ فکسنگ کے اثرات پاکستان کی کرکٹ پر بہت گہرے ہیں۔ سابق کپتان سلیم ملک سے پوچھا جائے کہ کیا واقعی وہ اکیلے قصوروار تھے تو وہ کہتے ہیں کہ میں نے تو جرمانہ ادا نہیں کیا تھا جو آج مزے لے رہے ہیں ان سب نے جرمانے بھرے ہیں اور بے قصور تھے جرمانے کیوں ادا کئے؟؟؟کوئی جسٹس اعجاز یوسف کی رپورٹ کا آخری پیرا گراف ہی پڑھ لے۔ یہ سب دنیائے کرکٹ کے ایک بڑے گیند باز جنہیں سوئنگ کا سلطان کہا جاتا ہے کے "گر" بتاتے نظر آتے ہیں کہ کیسے سوئنگ کے سلطان صرف گیند ہی سوئنگ نہیں کراتے تھے پورا منظر نامہ ہی سوئنگ کر دیتے تھے۔ وہ اکیلے میچ کا نقشہ بدلنے کی صلاحیت رکھتے تھے کبھی حقیقی معنوں میں کبھی جان بوجھ کر۔جیسے چند دن پہلے انہوں نے "سکپر" کو خوش کرنے کے لیے ایک ٹویٹ کیا پھر انہوں نے گیند کو دوسری طرف سوئنگ کرتے ہوئے نجم سیٹھی کو کلئیر کرتے ہوئے کسی اور کو نشانہ بنا کر ایک اور ٹویٹ کر دیا یوں آج بھی وہ سبکو "گھمانے" کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کوئی تھوڑی حقیقت آفتاب گل سے ہی پوچھ لے تاکہ کوئی ابہام نہ رہے اور تو اور ہمارے چودھری محمد صدیق کے پاس بھی کوئی کم معلومات نہیں ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ مروتا خاموش رہتے ہیں ورنہ وہ بھی جانتے ہیں کہ کیسے کیسے میچ بنائے اور بگاڑے جاتے رہے ہیں۔ یہ سب افراد جن کا ہم نے ذکر کیا ہے تمام کے تمام دنیائے کرکٹ کے ایک تیز گیند باز کی کھیل اور کھیل کیساتھ کھیلنے کی صلاحیتوں کے معترف نظر آتے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نوجوانوں کو سخت سزائیں دینے کیساتھ ساتھ ماضی کے ان مشکوک کرداروں کو بھی محدود کرے۔ اگر کسی کے بارے کسی کو شک ہے تو جاوید میانداد، عبدالقادر، عاقب جاوید، باسط علی اور تو اور اب تو عطاالرحمان بھی "سچ" بولنے کو تیار پھرتے ہیں۔ یہ ایک خوش کن حقیقت ہے کہ وسیم اکرم ایک ورلڈ کلاس گیند باز تھے ساتھ ہی ایک تلخ حقیقت ہے کہ انکا ماضی سب سے زیادہ مشکوک رہا ہے۔ ان پر عائد الزامات انکے ساتھی کھلاڑیوں کی طرف سے ہیں۔ اس کیس میں بھی کہیں انکا نام آ گیا تو کچھ باقی نہیں بچے گا۔ ایسا ہوا تو کیا نجم سیٹھی مکا لہراتے ہوئے زیرو ٹالرینس کے دعوے کو عملی جامہ پہنچائیں گے۔ اسکا فیصلہ ہم وقت پر چھوڑتے ہیں۔