قومی اسمبلی کا اجلاس‘ آخر تک کشیدگی میں کوئی کمی نہیں ہوئی
اسلام آباد (عترت جعفری) وفاقی وزیر انسانی حقوق کامران مائیکل کے قومی اسمبلی میں اس جملے ’’جیسے میں نے فرمایا‘‘ تھا سے ایوان کے ماحول میں کچھ مسکراہٹیں تو بکھیر دیں تاہم ماحول آغاز سے ہی کشیدگی کے پردے میں لپٹا ہوا تھا اور آخر تک اس میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اپوزیشن لیڈر واک آؤٹ کرتے ہوئے یہ ھمکی دے گئے کہ جناب سپیکر ہم ڈائس کے نیچے بیٹھ کر ہنگامہ نہیں کرنا چاہتے مگر یہ کر بھی سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا جب تک گمشدہ افراد اور پختونوں کے شناختی کے ایشوز پر پیشرفت نہیں ہوتی احتجاج جاری رہے گا۔ اپوزیشن کے واک آؤٹ کے بعد اپوزیشن کے زیادہ ارکان واپس نہیں آئے۔ اسی وجہ سے اعجاز جاکھرانی کا توجہ دلاؤ نوٹس زیرغور نہیں آ سکا جس میں انہوں نے بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کا مسئلہ اٹھایا تھا۔ واک آؤٹ سے قبل وہ ایوان میں تھے۔ وزیر مملکت بجلی و پانی عابد شیر علی بھی ایوان میں تھے۔ اجلاس 21 اپریل تک جاری رہے گا۔ اور ایسی توقعات باندھی جا رہی ہیں کہ آئندہ 10 دن تک پانامہ کیس کا فیصلہ بھی آ سکتا ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو پارلیمنٹ میں اس کا ذکر زور و شور سے ہو گا۔ حکومتی بنچز نے اپوزیشن کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہونے دی کہ کورم کی کمی کے باعث اجلاس ملتوی کر دیا جائے۔ حکومتی ارکان مطلوبہ تعداد میں موجود تھے۔ شازیہ مری نے وزیراعظم کی طرف سے پنجاب میں 77 حکومتی ارکان کو گیس سکیمیں دینے کے معاملہ پر بات کی۔ انہوں نے ارکان کے نام ایوان میں پڑھنے کی اجازت طلب کی تاہم سپیکر نے انہیں ایسا نہ کرنے اور کہا کہ ارکان کو واٹس ایپ کر دیں۔