• news

26 برس بعد بھارتی فوجی اہلکار کی آزاد کشمیر میں اپنے خاندان سے ملاقات

مظفرآباد (بی بی سی ڈاٹ کام) 1990ء میں مقبوضہ کشمیر میں جُدا ہونے والے محمد اشرف اور اشرف جان کو اپنے بچوں سے دوبارہ ملاقات کے لئے 26 سال سے زیادہ انتظار کرنا پڑا۔ محمد اشرف جب اپنے بچھڑے ہوئے خاندان سے 26 سال بعد ملے تو ان کی آنکھوں میں خوشی اور غم کے آنسو تھے۔ انہوں نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’جب ہم جدا ہوئے اس وقت میرا بیٹا 12 سال کا تھا۔ اب میرا پوتا 16 سال کا ہے۔‘ 1990ء میں مقبوضہ کشمیر کی وادی میں جب نئی دہلی کے خلاف تحریک زور پکڑ رہی تھی تو اس وقت محمد اشرف پاکستانی علاقے کے قریب واقع اپنے گاؤں سے دور انڈین سکیورٹی فورسز کے لئے خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ اسی سال اکتوبر میں جب انڈین حکام کی جانب سے عسکریت پسندوں کے خلاف پڑے پیمانے پر کارروائیوں کی خبریں گردش کر رہی تھیں تو محمد اشرف کا خاندان وہاں سے خوف کی وجہ سے جان بچا کر نکل گیا۔ انہوں نے تقریباً 20,000 کشمیریوں کے ہمراہ لائن آف کنٹرول پار کی اور پاکستانی علاقے میں پناہ حاصل کر لی۔ محمد اشرف نے خود کو ایک فوجی ملازمت میں پھنسا ہوا پایا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے سوچا اگر میں نے اپنا عہدہ چھوڑا تو مجھے غدار سمجھا جائے گا۔‘ انہیں اپنی ایک بیٹی کی بھی فکر تھی جو ان کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں رہ گئی تھی۔ بالآخر 2016ء میں پاسپورٹ بن گیا لیکن اس وقت تک اتنی دیر ہو چکی تھی کہ ان کے والد اور والدہ آزاد کشمیر میں انتقال کر چکے تھے۔ ان کے بچوں کی شادیاں اور پوتے پوتیوں یا نواسے نواسیوں کی پیدائش ہوچکی تھی۔ ان کی 62 سالہ اہلیہ بدر النسا نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’میں تمام بچوں کی شادیوں پر روتی رہی کیونکہ میں اپنے شوہر کی کمی محسوس کرتی تھی۔‘ اشرف جان اور محمد اشرف کا اپنے خاندانوں سے ملاپ عارضی ہے۔ ان کا ویزا صرف ایک ماہ کا ہے۔ انہوں نے ویزے میں اضافی وقت کی درخواست دائر کی ہے اور آزاد کشمیر میں رہتے ہوئے انہیں وزارت داخلہ کی جانب سے جواب کا انتظار ہے لیکن بالآخر انہیں واپس جانا ہی ہوگا۔ وہ اپنابھارتی پاسپورٹ چھوڑ کر آزاد کشمیر میں مہاجر کیمپ میں رہنے کے لئے مہاجرین کا درجہ حاصل کر سکتے ہیں لیکن محمد اشرف کے نزدیک اس کا مطلب اپنی دوسری بیٹی، گھر اور پنشن کو چھوڑنا ہوگا۔ اگر وہ انڈین پاسپورٹ رکھتے ہیں تو وہ دوبارہ واپس آسکتے ہیں۔ لیکن بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اس مسئلے کا مستقل حل دکھائی نہیں دیتا۔ محمد اشرف کی بیوی بدرالنسا اسی بات پر پریشان بھی ہیں: ’جب سے میرا شوہر ہمارے پاس آیا ہے ہم بہت خوش ہیں، لیکن خوشی کے لمحات مختصر ہیں۔ انہیں واپس جانا ہوگا۔‘ 

ای پیپر-دی نیشن