• news

قومی اسمبلی :بڑے سیاست دان اور بااثر شخصیات بجلی چوری میں ملوث :خواجہ آصف :لوڈ شیڈنگ کیخلاف اپوزیشن کا شیدید ہنگامہ

اسلام آباد (خصوصی نمائندہ+ نوائے وقت رپورٹ+ نیشن رپورٹ) قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران ملک بھر میں لوڈشیڈنگ کیخلاف اپوزیشن نے شدید احتجاج اور ہنگامہ کیا اور حکومتی اعداد و شمار کو مسترد کر دیا، عابد شیر علی کے ساتھ وفاقی وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف بھی میدان میں آ گئے اور اپوزیشن کو آڑے ہاتھ لیتے ہوئے سپیکر کی درخواست مسترد کردی کہ اپوزیشن کے لوگوں کے ساتھ بیٹھ بات کر لیں خواجہ آصف نے کہا کہ پورے کی فیڈرز کی رپورٹس پیش کرونگا خود فیصلہ کر لیں کہ کتنی بجلی چوری ہو رہی ہے۔ بند کمرے میں اعداد و شمار نہیں دیں گے اور نہ ہی بند کمرے میں مک مکا کریں گے۔ یہاں ایوان میں بیٹھ کر اس مسئلے پر بات ہوگی۔ جہاں بجلی چوری ہوگی وہاں بجلی نہیں دی جائے گی۔ اپوزیشن نے الزام عائد کیا کہ لوڈشیڈنگ کے حوالے سے سندھ کے شہریوں کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے سندھ سے زیادہ بجلی چوری لاہور میں ہوتی ہے لیکن لوڈشیڈنگ کاسار نزلہ سندھ پر گرایا جاتا ہے۔ وزیر مملکت عابد شیر علی نے اپوزیشن کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ لوڈشیڈنگ کسی صوبے، ضلع یا شہر کیساتھ کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جا رہا۔ حیسکو میں 193فیڈرز ایسے ہیں جہاں لائن لاسز 80 فیصد سے زیادہ ہیں، سندھ میں 4500 بجلی چوری کی درخواستیں پولیس کو دی گئیں مگر صرف 17 پر کاغذی کارروائی کی گئی اور کسی بجلی چور کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے سپیکر کی ہدایت پر اپوزیشن ارکان کو چیمبر میں بلا کر لوڈشیڈنگ اور لائن لاسز پر تفصیلات پیش کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ بند کمرے میںمک مکا نہیںکریں گے۔ یہاں بیٹھے چند لوگوں نے کروڑوں روپے کے واجبات دینے ہیں، پہلے بھی بجلی چوروں اور ناہندگان کی فہرست ایوان میںپڑھنا چاہی تھی مگر مجھے روک دیا گیا تھا، جو بھی بات ہوگی بند کمروں کی بجائے ایوان میں ہوگی تاکہ میڈیا کو بھی پتہ چلے کہ کون بجلی چوری میں ملوث ہے۔ اس موقع پر اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ سندھ والے خود کو سیکنڈ پاکستانی سمجھتے ہیں سندھ کے دیہی علاقوں میں آج بھی اٹھارہ گھنٹے جبکہ شہری علاقوں میں آٹھ گھنٹے لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ بھر کے مقابلے میںلاہور میں لائن لاسز اور بجلی چوری چار فیصد زیادہ ہے۔ شارٹ فال کا خمیازہ صرف سندھ‘ خیبر پی کے اور بلوچستان کو کیوں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ایک دوسرے پر الزام لگانے سے مسائل حل نہیں ہوتے الزامات سے نفرتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر نے کہا کہ وفاقی وزیر پانی و بجلی کا رویہ غیرمناسب ہے اگر لوگ واجبات ادا نہیں کررہے تو اس کی ذمہ دار وزارت ہے۔ جب میں وزیر پانی و بجلی تھا تو اس وقت لائن لاسز اور بجلی چوری کی عدم روک تھام کا ذمہ دار میں خود ہوتا تھا تو آج ان تمام معاملات کا ذمہ دار وفاقی وزیر ہیں، اس پر ان کو جواب دینا چاہئے نہ کہ لڑائی شروع کر دیں۔ آن لائن کے مطابق خواجہ آصف نے کہا کہ بڑے سیاستدان اور بااثر شخصیات بجلی چوری میں ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے بھی ایوان میں ان بجلی چوروں کے نام بتانا چاہتا تھا، مجھے روک دیا گیا تھا۔ خواجہ آصف کی جانب سے اسلامی اتحاد سے متعلق پالیسی بیان کے دوران کورم ٹوٹنے سے حکومت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ خواجہ آصف نے تقریر کر رہے تھے کہ پیپلز پارٹی کی شازیہ سعید نے کورم کی نشاندہی کر دی۔ اجلاس کے بائیکاٹ کے باوجود انہیں خصوصی طور پر کورم کی نشاندہی پر بھیجا گیا تھا۔ ڈپٹی سپیکر نے گنتی کرائی تو کورم ٹوٹنے پر اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں نے ان کے لوگوںکے غائب ہونے پر وزیر مملکت برائے داخلہ کی غیر حاضری پر اجلاس سے واک آئوٹ کر دیا۔ وزرائ، اپوزیشن لیڈر اور ارکان الجھ پڑے۔ جماعت اسلامی اور آفتاب شیرپائو کی قومی وطن پارٹی نے بھی واک آئوٹ میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا۔ واک آئوٹ سے پہلے اظہار خیال کرتے ہوئے قومی اسمبلی میںاپوزیشن رہنما سید خورشید شاہ نے کہا کہ ہم نے محنت کر کے 23 ویں آئینی ترمیم کو منظور کیا مگر دس دن بعد ہی اس کی خلاف ورزی کر دی گئی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ جو لوگ پکڑے گئے ہیں وہ پارسا ہیں لیکن گمشدہ لوگوں کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ سارے ادارے ہمارے ہیں مگرعوام سے طاقتور کوئی نہیں۔ خورشید شاہ نے الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہمیں آدھے گھنٹے میں حکومت کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا تو واک آئوٹ کو بائیکاٹ سمجھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آج اس جمہوری دور میں بھی پارلیمنٹ کو ربڑ سٹمپ سمجھا جا رہا ہے تو ایسی جمہوریت اور مارشل لاء کے ادورا میں کوئی فرق نہیں، اداروں کی مضبوطی اور جمہوریت کے پودے کو پروان چڑھانے کیلئے فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے برداشت کئے مگر حکومت اور وزراء ملک کو کسی اور جانب دھکیل رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ دل کے مریضوں کے لئے اعلیٰ کوالٹی کے معیاری سٹنٹس کی دستیابی یقینی بنائی جا رہی ہے، سٹیل ملز میں کوئی پیداوار نہیں ہو رہی، دسمبر تک ملازمین کی تنخواہیں ادا کر دی گئیں، مزید دو ماہ کی تنخواہیں جلد ادا کردی جائیں گی۔

ای پیپر-دی نیشن