گجرات: مسلمانوں پر 2002ءکے فسادات کا گہرا اثر ہے: سر پنچ نیلوفر
لاہور (بی بی سی نیوز) وڈودرا کے دیوالی پورہ گاو¿ں کی نئی سرپنچ نیلوفر پٹیل روایتی سرپنچوں سے مختلف ہیں۔ وہ ایک جدید خیالات والی نوجوان خاتون ہیں جو انگریزی اتنی ہی فراٹے سے بولتی ہیں جتنی اپنی مادری زبان گجراتی بولتی ہیں۔ نیلوفر کے سرپنچ منتخب ہونے پر دیوالی پورہ میں دیوالی جیسا ماحول تھا۔ پنچایت کی ایک خاتون رکن نے کہا کہ ’وہ پڑھی لکھی ہیں اس لیے ہم نے انھیں اپنا سربراہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس گاو¿ں میں نیلوفر کا بطور سرپنچ انتخاب مقامی میڈیا میں زیرِ بحث بھی آیا کیونکہ انھیں ہندو اکثریتی گاو¿ں کی آبادی نے اپنا رہنما مقرر کیا ہے۔ دیوالی پورہ میں مسلمانوں کی آبادی صرف 120 کے قریب ہے جن میں نیلوفر کا خاندان بھی شامل ہے۔ ریاست گجرات کے لیے یہ ایک منفرد واقعہ تھا، جہاں سمجھا جا رہا تھا کہ سنہ 2002 کے خوفناک تشدد کے بعد مسلم کمیونٹی دب کر اور سہم کر رہ رہی ہے۔ نیلوفر کافی خوش ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’مجھ پر بہت ذمہ داریاں ہیں۔ مجھے خواتین کے لیے کام کرنا ہے۔ گاو¿ں کے مسائل کو حل کرنا ہے۔ میں گاو¿ں کے مسلم سماج کے لیے بھی کام کرنا چاہتی ہوں۔ نیلوفر ایک دن پنچایت سے اسمبلی تک جانا چاہتی ہیں لیکن ان کے لیے یہ سفر مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ سیاست میں مسلمانوں کے نمائندگی کے بارے میں کافی مثبت خیالات رکھتی ہیں۔ ’سیاسی طاقت تو چاہیے۔ یہ سلسلہ نیچے سے شروع ہوگا تب ہی اوپر تک جائے گا۔ گجرات کے مسلمانوں کی شکایت رہی ہے کہ انھیں سیاست اور اقتدار سے الگ تھلگ کر دیا گیا ہے۔ سماجی کارکن فیروز خان پٹھان کہتے ہیں کہ’ہمیں دوسرے درجے کے شہری کا احساس ہوتا ہے۔ ہمیں جو سیاسی شراکت ملنی چاہیے وہ نہیں ملی ہے۔ بی جے پی نے زیرو پارٹنرشپ دی ہے۔ کانگریس نے بھی بہت کم دیا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ مسلم سماج کو سوتیلے سلوک کا احساس کھائے جا رہا ہے۔ ’ہم ہندو، مسلم علاقوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں۔ مسلم علاقے ہر معیار سے، چاہے پانی ہو یا بجلی یا سڑک یا کمیونٹی ہال، ہندو علاقوں سے پسماندہ ہیں۔ سماجی کارکن حنیف لکڑاوالا کہتے ہیں، ’گجرات ان (بی جے پی) کے لیے لیبارٹری رہا ہے۔ گجرات میں بھارتیہ جنتا پارٹی 1995 سے اقتدار میں ہے اور مسلمانوں کے ووٹ حاصل کیے بغیر اور مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیئے بغیر اسمبلی کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے فتح حاصل کرتی چلی آ رہی ہے۔ گجرات کی دو کروڑ ساٹھ لاکھ کی آبادی کا 9۔5 فیصد مسلمان ہیں، جن میں سے زیادہ تر کاروباری ہیں۔ گودھرا میں فروری 2002 میں 59 ہندو کارسیوکوں کی ہلاکت کے بعد ہونے والے فسادات میں ایک ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے تھے اور ان کے ہزاروں گھروں اور دکانوں کو جلا دیا گیا تھا۔ حنیف لکڑاوالا کہتے ہیں، 2002 کے فسادات کے بعد مسلمان دب گئے تھے، کافی ڈرے ہوئے تھے۔ دوسری طرف ریاست کے ہندوو¿ں کا جارحانہ رویہ اور غصہ بہت زیادہ تھا جس کی وجہ مسلم اپنی بستیوں میں سمٹ سے گئے تھے۔ گجرات میں اب بھی فسادات ہوتے ہیں لیکن بڑے شہروں میں بہت کم اور فسادات کا نمونہ بھی اب بدل چکا ہے۔ کچھ دن پہلے بی جے پی کے صدر امت شاہ بھی احمد آباد میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کرنے آئے تھے تو مجمع میں برقع پہنے مسلم خواتین اور داڑھی اور ٹوپی والے مسلمان بھی تھے۔ ان میں سے ایک سلیم خان بداوت کہتے ہیں: ’مسلمانوں کو بی جے پی کی حکومت میں بجلی، پانی، کھانا سب مل رہا ہے۔ مودی جی نے ہمارے حج کا کوٹہ بھی بڑھا دیا ہے۔ ایک خاتون شمیم خان کا کہنا تھا کہ 'لوگ کہتے ہیں کہ بی جے پی مسلمانوں کو ٹکٹ نہیں دیتی۔ وہ دن بھی جلد آئے گا جب مسلمان ٹکٹ حاصل کرنے کے قابل ہوں گے۔ برقع پہنے افسانہ انصاری بھی امت شاہ کی ریلی میں ہاتھوں میں پارٹی کا نشان یعنی کنول کا پھول لے کر آئی تھیں۔ افسانہ انصاری نے دو برس قبل بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ وہ کہتی ہیں وہ بی جے پی میں دو سال پہلے شامل ہوئیں۔ 'جیسے یہ لوگ لیڈر ہیں، کل ہم بھی لیڈر بنیں گے اور اپنے ملک کی خدمت کریں گے۔ لیڈر بنیں گے تو اپنی قوم کو بھی آگے لے کر آئیں گے اور ملک کو بھی بلند کریں۔ مسلمان بی جے پی کے قریب آ رہے ہیں لیکن ابھی یہ تعداد بہت کم ہے۔
بھارتی گجرات