بھارت دشمنی والے بیانات بند کرے‘ بحران بڑھنے سے پہلے کنٹرول کرناہو گا: سرتاج عزیز
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر) پاکستان میں متعین بھارت کے ہائی کمشنر گوتم بمباوالہ نے کہا ہے کہ انہوں نے جمعہ کے روز پاکستان کی خارجہ سیکرٹری سے ملاقات کر کے کلبھوشن یادیو کے خلاف چارج شیٹ کی مصدقہ نقول اور اس تک قونصلر رسائی مانگی ہے۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بھارتی ہائی کمشنر نے کہا کہ ملاقات کی درخواست انہوں نے خود کی تھی۔ نجی ٹی وی کے مطابق بھارتی ہائی کمشنر نے کہا کہ وہ کلبھوشن یادیو کی سزا کیخلاف اپیل کریں گے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق بھارت کی طرف سے فیصلہ کی نقول مانگنے کے دو مقاصد ہیں۔ اول یہ کہ ان کا جائزہ لیکر نقائص نکال کر عالمی سطح پر پراپیگنڈا کرنا ہے کہ کلبھوشن کو سزائے موت دینے کا فیصلہ درست نہیں اور دوسرا اس فیصلہ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے امکانات کا جائزہ لینا ہے۔ قبل ازیں پاکستان میں متعین بھارت کے ہائی کمشنر گوتم بمبا والے نے خارجہ سیکرٹری سے ملاقات کرکے بھارتی بحریہ کے حاضر سروس اور ’را‘ کے ایجنٹ کمانڈر کلبھوشن یادیو کا معاملہ اٹھایا۔ دفتر خارجہ کے مطابق خارجہ سیکرٹری تہمینہ جنجوعہ نے بھارتی ہائی کمشنر پر واضح کیا کہ کلبھوشن یادیو کے خلاف آرمی ایکٹ 1952ء اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923ء کے تحت مقدمہ چلایا گیا ہے۔ کلبھوشن یادیوکو پاکستان میں جاسوسی دہشت گردی اور تخریب کاری کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر رنگے ہاتھوں پکڑا گیا جبکہ کلبھوشن یادیو نے خود بھی ریاست پاکستان کے خلاف تخریب کاری میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی جاسوس کے خلاف مقدمے کی کارروائی میں تمام قانونی تقاضے پورے کئے گئے ہیں اور قوانین اور آئین پاکستان کے تحت اسے وکیل بھی فراہم کیا گیا ہے خارجہ سیکرٹری نے ان پر یہ بھی واضح کیا کہ متعدد پاکستانی برسوں سے بھارتی جیلوں میں سڑ رہے ہیں لیکن باربار کی درخواستوں کے باوجود پاکستان کو ان تک قونصلر رسائی فراہم نہیں کی گئی ہے خارجہ سیکرٹری نے کہا کہ بھارتی پارلیمنٹ کے اندر اس معاملے پر شور شرابہ قعطاً غیرضروری تھا جس کے نتیجے میں پاکستان کے خلاف نفرت اور اشتعال انگیزی میں اضافہ ہو گا۔ وزیراعظم پاکستان کا ویژن ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات قائم کئے جائیں اور یہ طرز عمل اس وژن کے خلاف ہے ۔
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر( مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بھارت پر واضح کیا ہے کہ کل بھوشن یادیو کو ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ انہوں نے ساتھ ہی بھارت کو خبردار بھی کیا کہ عوام کے درمیان دشمنی کا سبب بننے والے بیانات داغنے سے گریز کیا جائے۔ کیونکہ کہ دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ بحران کو سنجیدہ نوعیت اختیار کرنے سے پہلے کنٹرول کرنا ہوگا۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں تخریبی سرگرمیوں اور دہشت گردی میں ملوث غیرملکی جاسوس کوطریقہ کار مکمل کرتے ہوئے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر موت کی سزا دینے کے فیصلہ پر متفق ہیں۔ پاکستان کی سلامتی کو درپیش کسی بھی خطرے کی صورت میں پوری قوم مکمل طور پر یکجا ہے۔ مشیر خارجہ نے جمعہ کے روز ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کلبھوشن یادیو کو جاسوسی اور تخریبی سرگرمیوں پر دی گئی سزائے موت کی تفصیلات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو 3مارچ2016ء کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ غیر قانونی طریقے سے سرحد عبور کر کے ایران سے پاکستان کے اندر داخل ہوا، اس کے قبضے میں بھارتی پاسپورٹ تھا جس کی تاریخ اجراء 12مئی2015ء تھی اور جو 11مئی2024ء تک درست تھا۔ کل بھوشن نے تسلیم کیا کہ وہ ممبئی کا رہائشی ہے اور بھارتی بحریہ کا حاضر سروس افسر ہے، اس نے 2022ء میں ریٹائر ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کلبھوشن یادیو کے خلاف ملکی قوانین کے مطابق فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں پاک آرمی ایکٹ 1952ء کے سیکشن 59 کے تحت شفاف طریقے سے مقدمہ چلایا گیا اور پاکستان میں دہشت گردی کی فنڈنگ اور تخریبی سرگرمیاں کرنے میں ملوث ہونے کے قابل اعتماد، ٹھوس اور پختہ شواہد کی بنیاد پر سزا دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ جنوری میں بھارت کو کلبھوشن کے معاملہ میں مدد کا ایک خط لکھا گیا جس میں مخصوص معلومات اور بعض اہم گواہوں تک رسائی کی درخواست کی گئی تاہم اب تک بھارت کی جانب سے اس بارے میں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ مشیر خارجہ نے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ایجنٹ کلبھوشن کی طرف سے بلوچستان میں دہشت گردی کے حملوں یا تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور ان کی سرپرستی کرنے کی تفصیلات بھی بتائیں جن میں جانی و مالی نقصانات ہوئے، ان میں گوادر اور تربت میں دھماکہ خیز مواد نصب کرنے اور دستی بم حملے کی ہدایت دی، جیوانی بندرگاہ کے علاقے میں راڈار سٹیشن اور سویلین کشتیوں پر حملے کی ہدایات دیں۔ تخریبی سرگرمیوں کے لئے حوالہ اور ہنڈی کے ذریعہ پاکستان خاص طور پر بلوچستان میں دہشت گرد عناصر کو رقوم فراہم کیں، بلوچستان میں سبی اور سوئی میں گیس پائپ لائنوں اور بجلی کی تنصیبات پر حملوں کے لئے رقوم فراہم کیں، 2015ء میں کوئٹہ میں دیسی ساختہ دھماکہ خیز مواد کے دھماکوں میں ملوث رہا جس میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہوئے، اس کے علاوہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری اور ایران جانے والے شیعہ زائرین کو نشانہ بنانے کے لئے رقوم فراہم کیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں، ایف سی اور ایف ڈبلیو او کے کارکنوں کو تربت، پنجگور، گوادر، پسنی اور جیوانی میں 2014ء اور پندرہ کے دوران سپاہیوں اور سویلین کو شہید اور زخمی کرنے کے لئے حملوں کا اعتراف کیا۔ سرتاج عزیز نے سوال اٹھایا کہ ’’را‘‘ ایجنٹ کیوں جعلی شناخت کے ساتھ مسلم نام استعمال کر رہا تھا اور اس کے پاس دو پاسپورٹ تھے جن میں ایک مسلمان نام اور دوسرا ہندو نام کے ساتھ تھا۔ ایسی کوئی ٹھوس معلومات نہیں دی گئیں کہ ان کا ایک حاضر سروس نیول کمانڈر بلوچستان میں کیا کر رہا تھا بلکہ ایک جھوٹا پراپیگنڈا مہم شروع کردی گئی۔ اشتعال انگیز بیانات اور قتل عمد اور بلوچستان میں بے چینی کی باتیں کرنے کا نتیجہ صرف اشتعال میں اضافے کا باعث بنے گا اور اس کا کوئی مفید مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ یادیو کے ملکی قوانین اور آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کے دوران مقدمہ کی شفافیت برقرار رکھنے کے لئے بہت سے اقدامات کئے گئے۔ ایک مجسٹریٹ کے سامنے اس کا اعترافی بیان ریکارڈ کرایا گیا، پورے عمل کے دوران اسے ایک اہل قانونی افسرکی خدمات فراہم کی گئیں، تمام گواہیاں ملزم کی موجودگی میںحلف پر لی گئیں اور یادیو کو گواہوں سے سوالات پوچھنے کی اجازت دی گئی اور سزا اعلیٰ ترین فورم کی طرف سے سنائی گئی، ملزم کو پاکستان آرمی ایکٹ سیکشن دو اور آفیشل سیکرٹر ایکٹ1923کے تحت سزا سنائی گئی جس کی توثیق 10اپریل کو کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ملزم کو سزا دینے کے لئے اس کے خلاف مقدمہ ایک سال تک چلتا رہا۔ 25مارچ دو ہزار سولہ کو ملزم نے را کا آپریٹو ہونے کا اعترافی ویڈیو بیان دیا۔ 8اپریل2016کو اس کے خلاف کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کوئٹہ میں مقدمہ درج کیا گیا۔ ابتدائی تفتیش دو مئی دو ہزار سولہ کو کئی گئی، تفصیلی تفتیش 22مئی دوہزار سولہ کو کی گئی,12جولائی کو جوائنٹ انسٹیگیشن ٹیم تشکیل دی گئی۔ 22جولائی دو ہزار سولہ کو اس کا اعترافی بیان ریکارڈ کیا گیا۔ 24ستمبر2016کو سمری آف ایویڈنس ریکارڈ کی گئی۔ 21ستمبر دو ہزار سولہ کو پہلی سماعت، انیس اکتبور دو ہزار سولہ کو دوسری سماعت، انتیس نومبر دو ہزار سولہ کو تیسری سماعت، بارہ فروری دو ہزار سترہ کو چوتھی سماعت کی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ مجرم کے پاس چالیس دن کے اندر اندر اپیلٹ کورٹ میں اپیل کا حق موجود ہے اور اپیلٹ کورٹ کے فیصلے کے ساٹھ دن کے اندر وہ چیف آف آرمی سٹاف سے رحم کی اپیل کرسکتا ہے اور آرمی چیف کی طرف سے رحم کی اپیل خارج ہونے کی صورت میں اس کے نوے دن کے اندر صدر پاکستان سے رحم کی اپیل کرسکتا ہے۔