اورنج ٹرین ، شہروں کی پسماندگی چاہتے ہیں نہ تاریخی ورثے کا نقصان : سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبہ کے حوالے سے کیس میں عدالت نے ایل ڈی اے، نیسپاک اور حکومت پنجاب کے وکلا ء کو پیر سے درخواست گزاروں کے جوابات پر جواب الجواب پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ سول سوسائٹی نیٹ ورک کے وکیل نے کہا ہے کہ ٹرین منصوبہ مسلم لیگ ن کے لئے انتخابی نوٹنکی یا تماشا ہے جس کے ذریعے وہ محض قومی وسائل کو ضائع کرے گی۔ حکومت نے اپنے کسی ادارے کی تاریخی ورثہ کے تحفظ کی ذمہ داری نہیں لگائی ہے جبکہ نیسپاک کا بطور کنسلٹنٹ تقرر بھی شفاف نہیں ہوا ہے جس پرجسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ عدالت کے سامنے منصوبے کی شفافیت کا مقدمہ نہیں ہے جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مقدمہ تاریخی ورثہ اور ٹرین کی تھرتھراہٹ کا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ منصوبہ کی شفافیت پر اعتراض ہے تو الگ سے مقد مہ دائر کریں۔ وکیل نے کہا کہ نیسپاک کے بورڈ ممبران جانبدار ہیں،جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ آپ نیسپاک کی ساکھ پر حملہ کر رہے ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ مقدمہ میں معاونت صفر ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ جن نکات پر دلائل ہو چکے ہیں،ان سے ہٹ کر دلائل دیں۔ وکیل نے کہا کہ چوبرجی کے سامنے حافظ سعید کا مدرسہ واقع ہے، ٹریک کو حافظ سعید کے مدرسہ کے طرف نہیں موڑا گیا ہے جس پرجسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ کیا حافظ سعید کا مدرسہ بھی تاریخی ورثہ ہے جس پرکمرہ عدالت میں ایک قہقہہ بلند ہوا۔ وکیل نے کہا کہ منصوبے کا ماحولیات پر بھی اثر پڑے گا توجسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ یہ بتا دیں کہ ماحولیات کا تایخی ورثہ پر کیا اثر ہوگا تو اظہر صدیق نے کہا کہ ماحولیات در اصل تاریخی ورثہ ہی ہے۔ حکومت بغیر ڈیو پراسس کے ہی میگا پروجیکٹس بنانے کی عادی ہے، عدالت قومی ثقافتی ورثہ کو بچانے کی پابند ہے، اس لئے وہ ایسے منصوبوںکے لئے پیرا میٹرز طے کرے۔ ماہر آثار قدیمہ و درخواست گزار کامل خان ممتاز نے موقف اختیار کیا کہ ثقافتی ورثہ کے گرد 200 فٹ حدود کو بفر زون قرار دیا گیا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جہاں عمارتوں اور شہر کے بیچ سے ٹرینیں گزرتی ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں 200 فٹ کی حدود میں دیگر تمام عمارات کو بلڈورز اور ٹینکوں سے گرا دیں؟سویت یونین نے سب کچھ بلڈورز کردیا تھا، کیا بادشاہی مسجد کے قریب تمام عمارات کو گرادیں، عدالت میں کوئی عملی بات کریں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ شہروں کی پسماندگی چاہتے ہیں اور نہ ہی تاریخی ورثے کا نقصان چاہتے ہیں۔ ماہر آثار قدیمہ نے کہا کہ چوبرچی سے زیرزمین شالیمار باغ تک ٹریک بنایا جائے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ہم عملی معاملات پر یقین رکھتے ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ شالیمار کے تمام اطراف میں عمارتیں بننے سے تاریخی مقام کا نظارہ متاثر نہیں ہو رہا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ چھوٹے جزیروں پر مشتمل مالدیپ کو دیکھنے ایک سال میں 10 لاکھ سیاح آئے ہیں جبکہ لاہور کے تاریخی مقامات دیکھنے صرف چند سو لوگ آئے ہیں، چند سو لوگ بھی تفریح کیلئے آئے تھے، سیاحت کیلئے نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ 1973ءمیں شالیمار باغ کے اطراف کوئی عمارت نہیں تھی، نیسپاک کے وکیل نے کہا کہ 12 ہفتوں کیلئے اورنج ٹرین کی نگرانی کی جائے گی، این او سی کے تحت اگر منصوبے سے تاریخی مقامات کو نقصان پہنچا تو ٹرین روک دیں گے۔ عدالت نے کامل خان کو پرتھرتھراہٹ کا اثر کم کرنے کیلئے ماہرانہ رائے دینے کی ہدایت کی۔ آن لائن کے مطابق جسٹس اعجازافضل نے کہا تاریخی ورثہ کا تحفظ ہماری بھی ذمہ داری ہے، جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ جوتاریخی ورثہ بچ گیا اس کا تحفظ ضروری ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ تاریخی ورثہ کا تحفظ ہماری بھی ذمہ داری ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ تاریخی ورثہ پر کو ئی سمجھوتہ نہیں، لاہور شہر ہمارا بھی ہے، لاہور شہر کو ترقی بھی عزیز ہے، تاریخی ورثہ کا نقصان بھی برداشت نہیں،ہمیں قابل قبول حل بتایا جائے۔