مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی کی قیادت نے عہدیداروں کو ایک دوسرے کیخلاف بیان بازی سے روک دیا
لاہور (سید شعیب الدین سے) مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے اپنے وزرائے اعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزراء اور پارٹی کے سینئر عہدیداروں کو ایک دوسرے پر الزام تراشی اور تند و تیز حملوں سے روک دیا ہے تاہم آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف محتاط لہجے میں ایک دوسرے پر ہلکی پھلکی تنقید کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف اور دوسری علاقائی جماعتوں کی طرف سے یہ دعویٰ مسلسل کیا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی لڑائی نہ صرف نورا کشتی ہے بلکہ مک مکا کا کھلا ثبوت ہے۔ وہ حلقے جو مک مکا کی سیاست پر تنقید کر رہے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ 2005ء میں میثاق جمہوریت کی دستاویز پر بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی طرف سے دستخط کئے جانے کے بعد دونوں پارٹیوں میں مفاہمت کی فضا بنی رہی ہے جس کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں میاں نواز شریف کے خلاف 8 مقدمات میں ان کی بریت ہوئی اور یہی کچھ اب میاں نواز شریف کے دور حکومت میں ہو رہا ہے اور 7 مقدمات میں آصف علی زرداری کی بریت ہو چکی ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی اب آصف زرداری کے قریبی ساتھیوں کے خلاف مقدمات ختم کئے جا رہے ہیں یا گرفتار شدگان کی ضمانتیں منظور ہو رہی ہیں۔ ان چیدہ چیدہ افراد میں سابق وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی جنہیں 40 برس کی سزا ہوئی تھی وہ اب عدم ثبوت کی بنیاد پر باعزت بری قرار دیئے جا چکے ہیں۔ ایک اور وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم حسین جو کہ آصف زرداری کے نہایت قریبی ساتھی ہیں دہشت گردوں کا علاج کرنے کے الزام میں دہشت گردی کے مقدمے، منی لانڈرنگ اور کرپشن کے الزامات بھی اس پر مستزاد تھے کی ضمانتیں ہو چکی ہیں۔ سندھ حکومت کے سابق وزیر اطلاعات اور آصف زرداری کے دست راست شرجیل میمن جو ڈیڑھ سال قبل اچانک رات کی تاریکی میں ملک چھوڑ گئے تھے‘ جلاوطنی کے بعد واپس آگئے ہیں اور انہیں ضمانت میں توسیع مل چکی ہے۔ اندریں حالات پارٹی کے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اور سینٹ میں قائد حزب اختلاف چودھری اعتزازاحسن پراسرار خاموشی اختیار کر چکے ہیں۔ پارٹی کے نائب صدر اور سابق وزیراعلیٰ میاں منظور وٹو اور صدر پیپلزپارٹی سنٹرل پنجاب قمرالزمان کائرہ بھی شعلے نہیں اگل رہے اور ’’ماڈریٹ‘‘ موقف اختیار کر چکے ہیں۔ کچھ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ پانامہ کا فیصلہ آنے کے بعد دونوں جماعتوں میں تحریک انصاف کے خلاف مشترکہ سیاسی حکمت عملی اختیار کرنے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ 2013ء کے انتخابات میں ایم کیو ایم کے علاوہ سب سے زیادہ ووٹ لینے والے امیدواروں کا تعلق تحریک انصاف سے تھا۔ یہی حال پنجاب کا تھا اور موجودہ 4 برس میں ضمنی انتخابات نے ثابت کیا ہے کہ تحریک انصاف کا ووٹ بنک کم نہیں ہوا بڑھا ہے جس کی مثال عمران خان کو این اے 122 میں ہرانے والے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے مرکزی رہنما عبدالعلیم خان سے صرف 2 ہزار ووٹ سے حاصل کی گئی کامیابی ہے۔ بظاہر یہی وجہ لگتی ہے کہ آصف زرداری کو سندھ چھوڑ کر پنجاب میں بیٹھنا پڑ گیا ہے اور وہ اب پنجاب کو فوکس کرکے اپنی سیاست کر رہے ہیں۔ ناراض جیالوں کو منایا جا رہا ہے۔ الیکشن جیتنے کی صلاحیت والوں کو پارٹی میں شامل کیا جا رہا ہے اور مقصد یہی کہ پنجاب مقابلہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی بجائے ماضی کی طرح مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی میں ہو تاکہ 80ئ‘‘ 90ء اور 2000ء کی پہلی دہائی کا "Tow Party System'' دوبارہ بحال کیا جا سکے۔ تحریک انصاف کا خیبر پی کے میں مضبوط گرفت کمزور کرنے سے مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی نہ صرف پرانے اتحادی مولانا فضل الرحمن بلکہ اے این پی سے مکمل رابطے میں ہیں۔ مقصد چاروں جماعتوں کی خیبر پی کے کسی بھی طرح حکومتی کوریڈور میں واپسی ہے جبکہ اسی طرح سندھ میں کراچی کا بھاری پتھر چوم کر رکھ دینے کے بعد پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ (ن) کو ایم کیو ایم اور اس کے بعد پاپولر بننے والی جماعت تحریک انصاف کے مقابلے کیلئے راستہ دیدیا ہے۔