بدھ‘ 21 رجب المرجب‘ 1438 ھ‘ 19 اپریل 2017ئ
نواز شریف کا فون ترک صدر کو ریفرنڈم میں کامیابی پر مبارکباد
جی ہاں فوراً مبارکباد دینی تو تھی ہی۔ خود میاں صاحب کے دل میں بھی اس وقت لڈو پھوٹ رہے ہوں گے۔ یہ تو لوڈشیڈنگ اور امن و امان نے پاﺅں میں بیڑیاں ڈال رکھی ہیں ورنہ میاں صاحب تو خود بھی چاہتے ہیں کہ جلد از جلد پاکستان میں ایسا موقع آ جائے کہ وہ بھی ایسا ہی ریفرنڈم کرا کے خود بھی تاحیات امیرالمومنین کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہو جائیں۔ مسلمان ممالک کی بدنصیبی یہی ہے کہ یہاں جو بھی حکمران آتا ہے خواہ جمہوری ہو یا آمری۔ وہ خود کو خدا کا فرستادہ سمجھنے لگتا ہے۔ مسلم بادشاہوں نے بھی خود کو قدیم زمانے کے شاہوں کی طرح ظل الٰہی بنا لیا۔ اب ترکی میں رجب طیب اردگان کی طبیعت بھی مچل اٹھی اور انہوں نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے ریفرنڈم کرایا جس کا پہلا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ قوم 51اور 48 فیصد میں تقسیم ہو گئی ہے۔ ظل الٰہی بننا ترک صدر کو نصیب ہوتا ہے یا نہیں‘ معلوم نہیں۔ مگر اس سیاسی خلفشار میں اگر فوج بھی 48فیصد کے ساتھ مل گئی تو پھر....
امیر شہر سے کہہ دو کہ اپنی فکر کرے
غریب شہر کے تیور بدلتے جاتے ہیں
والی نوبت آ سکتی ہے۔ شہنشاہ ایران، صدام اور قذافی کہاں گئے ۔ میاں جی بھی ہوشیار رہیں اور بھٹو کے انجام سے باخبر بھی۔ جمہوریت جب آمریت کی شکل میں ڈھلنے لگتی ہے تو انجام بھیانک ہی نکلتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
بنیان پہن کر آپریشن کرنے والے ڈاکٹر کی تصویر پر سینٹ کی قائمہ کمیٹی کا نوٹس
یہ حضرت جھنگ میں پریکٹس کرتے ہیں اور قصابوں کو یہ چیلنج دیتے نظر آتے ہیں کہ ”ہم سا ہو تو سامنے آئے“۔ کیا معلوم یہ جھنگ کو حالت جنگ میں سمجھ کریا بھنگ پی کر ایمرجنسی ڈیوٹی انجام دینے کے جذبے سے سرشار ہو کر آپریشن کر رہے ہوں یا پھر گرمی کی شدت میں لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں ستایا ہوا ڈاکٹر بھلا اور کر بھی کیا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں تو کئی ویڈیوز موجود ہیں کہ فرض کے ہاتھوں مجبور ہو کر ڈاکٹروں نے ٹارچ کی روشنی میں آپریشن کئے۔ یہ خوش قسمتی ہے یا کرامت کہ وہ آپریشن کامیاب رہے تھے۔ اس پر صرف ہم ہی نہیں اقوام مغرب بھی ششدر و حیران ہیں۔ اب سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو اس ڈاکٹر کے خلاف کارروائی کا نوٹس دیا ہے۔ جو معلوم نہیں غیر مناسب لباس پہننے پر ہے یا لاپروائی سے کام لینے پر۔ مگر کیا کبھی سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے سڑکوں، بازاروں میں، گلیوں محلوں میں موجود ان عطائیوں کی طرف بھی نظر کی ہے جو کھلے عام غریبوں کی صحت اور جیب سے کھیل رہے ہیں، یہ ”نیم حکیم خطرہ جاں“ جو ڈاکٹر کہلاتے ہیں بیک وقت سرجن بھی ہیں فزیشن بھی اور ڈینٹل بھی۔ جو پورے کپڑے تو درکنار صرف چٹائی بچھا کر سڑکوں پر ہی علاج اور آپریشن کر رہے ہوتے ہیں۔
پنجاب کے سرکاری سکولوں کے 10 ہزار طلبہ کو مفت سائیکلیں دینے کا فیصلہ
اگر خادم اعلیٰ اسی طرح تعلیم کی طرف توجہ دیتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب پنجاب میں سکول آباد اور جہالت برباد ہو گی۔ سرکاری سکول کبھی معیاری تعلیم کی وجہ سے لوگوں کےلئے آئیڈیل ہوتے تھے شاید اس وقت کے استاد کو علم سے محبت تھی۔ وہ بچوں کو پڑھانا چاہتے تھے۔ پیار اور مار کا رشتہ بہت پرانا ہے۔ اس وقت کے والدین بھی تعلیم کی راہ میں مار کو برداشت کر لیتے تھے کہ یہ بھی ضروری ہے۔ پھر سیاست بازی اور اساتذہ تنظیموں نے سرکاری سکولوں کا وہ حال کر دیا کہ بقول شاعر....
یہ گرد بیٹھ جائے تو معلوم کر سکوں
آنکھیں نہیں رہیں کہ تماشہ نہیں رہا
ا کے بعد نجی سکولوں کا ایسا تماشہ لگا کہ سرکاری سکول بھوت بنگلوں، اوطاق اور باڑوں میں بدل گئے۔ اب وزیر اعلیٰ پنجاب اگر اپنے شہباز سپیڈ پروگرام کی برق رفتاری سے ان سکولوں کو پھر زندہ کر دیں تو مزہ آ جائے۔ غریب لوگ نجی سکولوں کے ہاتھوں لٹنے سے بچ جائیں گے۔ خادم اعلیٰ کو دعائیں دیں گے۔ سرکاری سکولوں میں جب غریب کے بچوں کو مفت کتاب یونیفارم دوپہر کا کھانا، وظیفہ اور یہ سائیکلیں ملیں گی تو خود بخود ان کے بچے یہاں کا رخ کریں گے۔ یوں یہ سکول آباد ہوں گے اور پنجاب میں خواندگی عام ہو گی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
ماضی میں افغانستان کا ساتھ نہ دیتے تو کیا آج وہ موجود ہوتا: ناصر جنجوعہ
کیا ہوتا یا کیا نہیں ہوتا۔ افغانستان حکومت کو اسکی کوئی فکر نہیں وہ صرف اور صرف اپنی پھنے خانی دکھانے میں مصروف ہے۔ ادھر ہم ہیں کہ انکی وجہ سے
”ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا“
کی تکرار کرتے پھرتے ہیں۔ ریچھ نے مچھلی سمجھ کر افغانوں کو ہڑپ کیا تو یہ بھاگ کر ہماری طرف دوڑے۔ اس ملک کی طرف جسے اپنا دشمن کہتے رہے۔ جس کی رکنیت کیخلاف اقوام متحدہ میں ووٹ دیا۔ دوسرے کسی ہمسایہ برادر ملک نے انہیں منہ تک نہیں لگایا۔ شاید وہ ان کی فطرت سے آگاہ تھے۔ یہی ڈیورنڈ لائن جسے آج بھی افغانستان حکومت تسلیم کرنے سے انکاری ہے روس کے سامنے وہ دیوار آہنی بن گئی جس نے اسے گرم پانیوں تک آنے سے روک دیا۔ اگر اس وقت ہم روس کے ساتھ ہو جاتے تو آج یہ پاکستان پر الزامات لگانے والے منہ کہاں ہوتے۔ سچ کہہ رہے ہیں جنجوعہ صاحب کہ شاید آج افغانستان کا وجود تک نہ ہوتا اور ہماری حالت بھی یہ نہ ہوتی۔ ہم نے 40 لاکھ مہاجرین کا بوجھ اٹھایا انہیں کھلایا پلایا جواب کیا ملا۔ نفرت، تشدد، اسلحہ، منشیات اور دھماکے۔ یہ اچھی سوغات ہے جو مدد کرنے کے صلے میں پاکستان کو ملی۔ اسکے باوجود پاکستان کی پوری کوشش ہے کہ افغانستان میں امن ہو ورنہ روس کے بعد اگر امریکہ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا رہا ہے تو ہمیں کیا۔ ہمیں پرائی آگ سے بچنا چاہئے مگر برادر اسلامی ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان آج بھی افغانستان کی بقا کےلئے تیغ برہنہ بن کر کھڑا ہے۔ مگر افسوس ان جاہلوں کو اس کی قدر نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭