احسن اقبال ،ثمرمبارک مند اورایک خط
مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی ،کالم نویسی کررہا ہوں کہ میدان جنگ میں کھڑا ہوں ہر نیا دن میرے لےے ایک نئی آزمائش لے کر طلوع ہو رہا ہے اس مادر وطن کی محبت میں ،ماضی کی محبتوں سے بتدریج محروم ہوتا جا رہا ہوں ماضی کے حقائق کچھ ایسے ہیں جن سے انکار ممکن نہیں یہ سب نیزے اور بھالے بن کر میرے تعاقب میں ہیں اب تو عالم یہ ہوچکا ہے کہ آگے کھوہ (کنواں) ہے تو پیچھے کھائی ،جاﺅں تو جاﺅں کہاںکچھ سمجھ نہیں آرہا ۔گذشتہ ہفتے ایک دوست نے ڈاکٹر ثمرمبارک مند کے انکشافات سے بھرپور انٹرویو کا وڈیوکلپ بھیجا جو وقت نیوز پر ’گریباں بدست‘ برادرعزیز مطیع اللہ جان نے کیا تھا ۔المناک انکشافات سے بھرپور یہ انٹرویو سننے کے بعد اس کالم نگار نے عزیزم مطیع اللہ کو کال کی اور پوچھا کہ کہیں اس نے انہی صفحات پر شائع ہونے والے اپنے نوکیلے کالم میں اس کا ذکر تو نہیں کردیا ،انہوں نے بتایا کہ کالم لکھنے کی فرصت انہیں کہاں میسر ہے جس پر ڈاکٹر ثمرمبارک مند کے انکشافات اورقوم کے مستقبل سے متعلقہ معلومات نے مجھے مجبور کردیا کہ اسے کالم کاموضوع بناﺅ۔
اقتدار کے ایوانوں میں بے حسی کا یہ عالم ہے کہ مارچ کے اوائل میں براڈ کاسٹ ہونیوالے اس انٹرویو پر کسی نے توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی اب تمام معلومات کالم میں شائع ہوئے ایک ہفتہ ہونے کو آیا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں درجنوں کے حساب سے بروئے کار حکمرانوں کے نجی اورسرکاری میڈیا سیلوں نے بھی مکمل خاموشی اختیار کررکھی ہے یہ کالم نگار بہت خوش تھا کہ کسی نے اس پر توجہ نہیں دی اورمعاملہ رفت گذشت ہوگیا ہے لیکن برا ہو انسانی یادداشت اور فرصت اوقات کا کہ سات سمندر پار کینیڈا کے برف زاروں میں کسی کونے کھدرے میں زندگی کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونےوالے ایک واقف حال عینی شاہد نے بھی یہ کالم انٹرنیٹ کی برق رفتار دنیا کے سبب کسی طرح پڑھ لیا اورپھر ایسا خط لکھا ،ماضی کے حوالے سے اس عاجز کالم نگار کی ایسی ایسی گو شمالی کی کہ اب تک حیران وپریشان ،ششدر بیٹھا ہوں ۔باوجود ہزار کوشش کے اعلی ادبی ذوق رکھنے والے اس لاجواب یادداشت کے مالک ،اپنے دوست کے خدوخال تو یاد نہیں کرپایا لیکن اساتذہ کے اشعار سے مزین ،پیچیدہ اعدادوشمار کا مرکب یہ گرامی نامہ بلا عنوان ،بلاتبصرہ حاضر خدمت ہے ۔
صرف اس بات کا خدشہ ہے کہ شائد برادرم احسن اقبال کی محبتوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھوں گا۔خاص طور پر جب آپ وزارت عظمیٰ کے بلند پایہ منصب کی طرف قدم بہ قدم بڑھ رہے ہوں۔ اب آپ ادب عالیہ کامرقع یہ خط ملاحظہ فرمایئے ۔
جناب اسلم خاں صاحب ،السلام علیکم
مدتوں بعد ہماری آدھی ملاقات ہورہی ہے جو شائد آپ کیلئے خوشگوار نہیں ہوگی کیونکہ میں آپ کو ایسی ناگوار بھولی بسری باتیں یاد دلانا چاہتا ہوں جو آپ کے نازک مزاج شاہاں پر یقینابہت ناگوار گزریں گیں جس پر پیشگی معذرت خواہ ہوں گذشتہ دنوں آپ نے ممتاز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے تھرکول سے بجلی پیداکرنے کے منصوبے کاذکر کرتے ہوئے بتایا کہ 9ارب روپے کے اس منصوبے نے حتمی طور پر 10میگا واٹ بجلی پیدا کرنا شروع کردی تھی جس کی لاگت صرف 6روپے فی یونٹ تھی جبکہ نجی شعبے میں سیٹھوں کے بجلی پیدا کرنے والے کارخانے 24روپے فی یونٹ بجلی حکومت پاکستان کو فروخت کررہے ہیں جس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ 18روپے فی یونٹ مہنگی بجلی خریدی جارہی ہے ۔ماہرین برقیات کے مطابق پاکستان میں روزانہ 30کروڑ یونٹ (300ملین )خرچ ہوتے ہیں جن میں سے26کروڑیونٹ ( 260ملین) سیٹھوں کے کارخانے واپڈا کو 24روپے فی یونٹ بیچتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ قوم ان سیٹھوں سے 18روپے فی یونٹ کے حساب سے 4ارب 68کروڑ روپے کی بجلی مہنگے داموں خریدتی ہے سادہ الفاظ میں کہاجاسکتا ہے کہ اگر ڈاکٹرثمرمبارک مند کا تھرکے کوئلے سے بجلی پیداکرنے کا منصوبہ چلنے دیا جا تا تو یہ بجلی ہمیں صرف 1ارب 56کروڑ روپے میں دستیاب ہوتی اس طرح نجی شعبے میں کام کرنے والے سیٹھوں کے کارخانے قومی خزانے کو 3ارب 12کروڑ روپے روزانہ کی بنیاد پر نقصان پہنچا رہے ہیں ۔
برادرم اسلم خاں صاحب آپ نے ذکر کیا ہے کہ ڈاکٹر ثمرمبارک مند نے سستی بجلی پیدا کرنے کے اس قومی منصوبے کی بندش کی تمام تر ذمہ داری انجنئیر احسن اقبال پر عائد کی ہے جنہوں نے بقول ثمرمبارک مند بڑی سنگدلی سے سب کچھ جانتے بوجھتے صرف حکمران ٹولے اور اسکے حالی موالیوں کو روزانہ 3 ارب روپے کا فائدہ پہنچانے کیلئے قوم کا مستقبل اندھیروں میں ڈبودیا ہے ۔مجھے حیرت اس بات پر ہوئی ہے کہ آپ نے اپنے اندازتحریر اور شخصی عادات کے بالکل برعکس چلتے چلتے ذکرکیا کہ پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے مرکزی رابطہ کار اوروفاقی وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال کا ذکر بڑے غیرمحسوس انداز میں چلتے چلتے نمٹا دیا ہے آپکی اس شعوری یا لاشعوری واردات نے مجھے ماضی کے جھروکوں میں دھکیل دیا جس کی تفصیلات شائد آپ بھول بھلا چکے ہوں گے لیکن
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا، تمہیں یاد ہوکہ نہ یاد ہو
یہ تو آپ کو یاد ہوگا کہ آج کے پروفیسر احسن اقبال ماضی کے ایسے مکنیکل انجینئر تھے جو میرٹ پر یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (UET) میں داخلہ نہیں لے سکے تھے اورراجپوتوں کے اس لائق فائق فرزند کو مجبوراً انجینئرنگ کالج ٹیکسلا میں داخلہ لینا پڑا تھا یہ تو سب کے علم میں ہے کہ سول اور الیکٹریکل انجینئرنگ کے شعبے ہمیشہ سے مکینکل انجنئیر نگ سے برتر سمجھے جاتے ہیں اس لےے میرٹ کی نچلی سطح پر آنے والے طلبہ کو مجبوراًمکنیکل میں داخلہ لیناپڑتا ہے تاکہ وہ انجینئر کا دم چھلالگا کر اپنے گھروالوں کی نفسیاتی اور ذہنی تسکین کرسکیں جبکہ ماضی کے ہمارے مشترکہ دوست احسن اقبال تو ماشا اللہ ایسے لائق فائق طلبہ میں شامل تھے جو انجینئرنگ کالج ٹیکسلا میں بھی بمشکل مکنیکل کے شعبے میں داخلہ لے پائے تھے اسکے بعد جو کچھ ہوا وہ میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں جو آپ بوجہ بھلا دینا چاہتے ہیں کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ،سنا ہے آپ بھی نسلی تفاخر کے بہت بڑے پرچارک بن چکے ہیں کہ ٹکامحمد خالد خاں کی صحبت نے نسلی اور خونی تفاخر کا احساس آپ میں دوچند کردیا ہے اورکہتے ہیں کہ آپ راجپوتوں کے (Blue Blood) ہونے کی قدیم داستانیں شبینہ مجالس میں بڑے ذوق وشوق سے بیان کرتے ہیں اوراپنے جنگجو آباواجداد اور سورماﺅں کی بہادری اوررسم جوہر کے واقعات سنتے اورسناتے ہیں شائد اسی لےے اب انصاف کا ترازو آپکے ہاتھ سے گر چکا ہے اورآپ یہ بھی بھول گئے کہ پروفیسر احسن اقبال کی ٹیکسلا سے لاہور (UET)غیرقانونی مائیگریشن کیلئے اس وقت کے ’ امیرالمومنین ‘جنرل ضیا الحق شہید نے براہ راست مداخلت کی تھی اعلی پیشہ وارانہ تعلیمی اداروں میں میرٹ اور انصاف کا پہلا قتل تھا اسکے بعد تو بقول رسا چغتائی ....
صرف مانع تھی حیا ،بندِ قبا کھلنے تلک
پھرتو وہ جان ِحیا ،ایسا کھلا ایسا کھلا
پھر خصوصی کوٹے ،مخصوص نشستوں ،سپورٹس اور دیگر امتیازات کے نام پر ایسے ایسے طلبہ ان اداروں میں پہنچے اورایسی ایسی جگ ہنسائی ہوئی جو اب تاریخ کا حصہ ہے لیکن اس کا آغاز لائق فائق پروفیسر احسن اقبال کی مائیگریشن سے ہوا تھا مجھے طلبہ یونین (UET) کے صدارتی انتخاب میں احسن اقبال کی کامیابی اورانتخابی مہم کی جزئیات تک یاد ہیں جب آپ ایک اورمشہور زمانہ کردار ،موتیوں والی سرکار ،منصورصدیقی کے ساتھ جناب احسن اقبال کو اپنے کندھوں پر اُٹھائے پھرتے تھے تو جناب عالی بڑے ہوکر جناب احسن اقبال نے یہی گل کھلانے تھے اسی لےے تو کہتے ہیں کہ
ہونہار بِروا کے چکنے چکنے پات
طویل ماہ و سال نے صرف اتنا فرق ڈالا ہے کہ پہلے جرنیل انکی سرپرستی کرتے تھے اب وہ (احسن اقبال) سیٹھوں سرپرستی کرتے ہیں اورایسے نیک نام ہیں
شام کو مے پی، صبح کو توبہ کر لی
رند کے رند رہے ،ہاتھ سے جنت نہ گئی
اورقوم کو اربوں روپے روزانہ کا انجکشن لگاتے ہیں اورقوم سے حسنِ انتظام کی داد پاتے ہیں اور پاکستان کیلئے شہ رگ کی حیثیت رکھنے والا پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کے مرکزی رابطہ کار ہیں ۔جناب نواز شریف اب انکے ایسے عاشق زار ہیں کہ کسی ناگہانی میں یہ پاکستان کے نئے متوقع وزیراعظم ہوسکتے ہیں .... والسلام .... دعاﺅں کے ساتھ
انجینئر اشفاق اللہ خان
حال مقیم سی چوآن ،کینیڈا