اقبال اور مغربی جمہوریت کے کرشمے
سرسید احمد خان نے کہا تھا کہ مغربی جمہوریت ہندوستان کیلئے موزوں نہیں ہے کیونکہ ہندوستان کے لوگ نسل زبان مذہب عقیدے برادری کے حوالے سے منقسم ہیں۔ وہ جہالت اور سیاسی شعور سے نابلد ہونے کی وجہ سے مغربی جمہوریت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔چوہدری محمد علی: پاکستان کا ظہور دنیا کے دانشور علامہ اقبال کے فکر اور فلسفے کے آج بھی معترف ہیں۔ اقبال نے مغربی جمہوری نظام کا سنجیدہ اور گہرا مطالعہ کرنے کے بعد اسے شیطانی جمہوریت (دیو استبداد) قرار دیا تھا۔ انہوں نے اپنی معروف نظم ”ابلیس کی مجلس شوریٰ“ میں تحریر کیا کہ جب آدم خود نگر اور خود شناس ہونے لگا تو سرمایہ داروں نے ملوکیت کو جمہوری لباس پہنادیا۔ اقبال نے دو ٹوک الفاظ میں کہا۔
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندرون چنگیز سے تاریک تر
اقبال نے مغربی جمہوریت کی بنیادی خامی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ اقبال روحانی جمہوریت کے قائل تھے جو اخلاقیات اور اسلام کے سنہری اُصولوں امانت، دیانت، صداقت، مساوات اور اخوت کی پابند ہو اور جس میں ”ایک فرد کی فطرت کے امکانات نشوونما پاسکیں“۔ افسوس ہم نے آزادی کے بعد اسی مغربی جمہوریت کو اپنالیا جسے ہندوستان میں استحصال، غلامی اور حکمرانی کیلئے نافذ کیا گیا تھا۔ امریکہ کے بانی لیڈر ایسے جمہوری سیاسی نظام کے قائل تھے جو انسانیت، اخلاقیات اور انصاف کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا ہو۔ اقبال کا وژن درست ثابت ہوا۔ مغرب کا جمہوری چہرہ بے نقاب ہوچکا ہے۔ دنیا کے چند امیر ترین خاندان جمہوری نظام کو چلا رہے ہیں اور دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں۔ ”چنگیزی جمہوریت“ اپنے ہی بنائے ہوئے عالمی اُصولوں اور عالمی تنظیموں (اقوام متحدہ) کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ امریکی جمہوریت نے عراق اور افغانستان میں اس قدر انسانی ہلاکتیں کیں کہ دنیا چنگیز خان کو بھول گئی۔ دنیا کے جمہوری نظاموں کا ارتقاءملاحظہ فرمائیے۔
جارج واشنگٹن امریکہ کے بانی صدر تھے انکے سیاسی تدبر اور بصیرت کی آج بھی دنیا قائل ہے جبکہ امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ مغربی جمہوریت کا ارتقائی چہرہ ہیں وہ امریکہ کے امیر ترین سیاستدان 4.5 بلین ڈالر اثاثوں کے مالک ہیں۔ انہوں نے عالمی امن کو خطرہ سے دوچار کردیا ہے۔ امریکی جمہوریت نے عالمی امن کو یقینی اور انسانیت کو محفوظ بنانے کے بجائے اس قدر خطرناک ایٹمی ہتھیار تیار کیے ہیں جو چند منٹوں میں پوری دنیا کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ اگر جمہوریت نظام اخلاقیات کا پابند ہوتا تو آج دنیا محفوظ اور پرامن ہوتی۔ امریکی جمہوریت نے آٹھ افراد کو اس قدر امیر بنادیا ہے کہ انکے پاس دنیا کی نصف آبادی سے زیادہ دولت ہے۔ بھارتی جمہوریت کا کرشمہ ملاحظہ کیجئے۔ بھارت کے تین لیڈر مہاتما گاندھی، اندراگاندھی اور راجیو گاندھی قتل ہوگئے۔ بھارتی جمہوریت کا تسلسل قائم ہے مگر یہ اسقدر سفاک اور سنگدل نکلی کہ گجرات میں دوہزار بے گناہ مسلمانوں کا قاتل امریکہ اور مغرب کا ناپسندیدہ شخص نریندرمودی بھارت کا وزیراعظم منتخب ہوگیا۔ بھارتی جمہوریت نے امارت کے جزیرے اور غربت کے سمندر پیدا کیے ہیں۔ بھارتی جمہوریت نسل در نسل کشمیریوں کو قتل کررہی ہے جو اپنی آزادی کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد تحریک آزادی کی روح کیمطابق قائداعظم کے تصور اور علامہ اقبال کی فکر کی روشنی میں جمہوری سیاسی نظام تشکیل دیا جانا چاہیئے تھا۔ کلونیل ذہنیت کی حامل اشرافیہ نے کلونیل نظام کو جاری رکھا۔ براﺅن انگریز گورے انگریزوں سے زیادہ سفاک اور سامراجی و استحصالی ثابت ہوئے۔ ہم نے قائداعظم اور لیاقت علی خان جیسے عظیم لیڈروں کی قیادت میں آزادی کے سفر کا آغاز کیا۔ ستر سال کے جمہوری اور آمرانہ تجربے کے بعد آج میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری ہمارے لیڈر ہیں۔ گویا ہم نے بلندی سے پستی کی جانب سیاسی سفر کیا ہے۔ پاکستان کے جمہوری سیاسی نظام نے ریاست کو ہی دولخت کردیا اور تین بلند قامت وزرائے اعظم لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو شہید کردیا۔ موجودہ نظام میں دانا بینا شخصیات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ معیار کی بجائے تعداد کو ترجیح دی جاتی ہے۔ مغربی جمہوریت قوم کو تقسیم کررہی ہے جس سے سامراجی طاقتوں کے مقاصد پورے ہورہے ہیں۔ موجودہ جمہوری نظام نے میگا کرپشن کو جنم دیا ہے جس کی وجہ سے عوام کی اکثریت بنیادی انسانی حقوق روٹی، تعلیم، صحت، روزگار اور انصاف سے محروم ہیں۔ عالمی ادارے کی رپورٹ کےمطابق پاکستان کے 84فیصد عوام کو صاف پانی میسر نہیں ہے۔ ہر سال آٹھ لاکھ پاکستانی بچے خوراک کی کمی کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے اراکین بیوروکریسی سے ملی بھگت کرکے اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز ہڑپ کرجاتے ہیں۔ اس نظام میں منتخب حکمران گورنینس پر توجہ دینے کی بجائے اقتدار کو بچانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ شیطانی جمہوریت بدنام ، کرپٹ اور مجرم افراد کو پارلیمنٹ کارکن منتخب ہونے سے نہیں روک سکتی۔ اس جمہوری نظام نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا ناسور پیدا کیا ہے۔ موجودہ جمہوریت بہت مہنگی ہے قومی خزانے کے اربوں روپے اراکین پارلیمنٹ، وزیروں اور مشیروں کی تنخواہوں اور مراعات پر صرف ہوجاتے ہیں۔ جبکہ عوام جہالت اور غربت کا شکار ہورہے ہیں۔ موجودہ جمہوریت نے ریاست کو اس قدر مقروض بنا دیا ہے کہ آنےوالی نسلیں قرض کے شکنجے سے باہر نہیں نکل پائیں گی۔ جمہوریت میں سرمایہ اور جرم شامل ہوچکا ہے کوئی اہل دیانتدار بے لوث شخص اس جمہوریت میں انتخاب لڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ سنگا پور کے عظیم قائد لی کوان یو نے درست کہا تھا جس ریاست کے عوام تعلیم یافتہ نہ ہوں اور اخلاقیات کو اہمیت نہ دیتے ہوں اس ریاست میں ون مین ون ووٹ پر مبنی جمہوری نظام نہیں چل سکتا۔
علامہ اقبال کا وژن درست ثابت ہوا پاکستان کے نام نہاد جمہوری نظام میں جمہوری لیڈر بادشاہ بن چکے ہیں۔ وہ آئین قانون اور جمہوری اُصولوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت نام کی کوئی شے موجود نہیں ہے۔ پاکستان کے بانی قائداعظم نے جمہوریت کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کیا تھا۔ ”اسلام اور اسکے اعلیٰ اُصولوں نے ہمیں جمہوریت کا سبق دیا۔ اسلام مساوات، انصاف اور ہر ایک کیلئے فیئر پلے کا درس دیتا ہے۔ جمہوریت سے خوف زدہ ہونے کا کوئی جواز نہیں۔ جمہوریت کی بنیاد مساوات، آزادی، دیانت اور اخلاق کے اعلیٰ معیار، ہر ایک سے شفاف اور مساوی انصاف پر رکھی جائیگی“۔خطاب کراچی بار ایسوسی ایشن 25جنوری 1948 پاکستان کا موجودہ جمہوری ماڈل قائداعظم اور علامہ اقبال کے تصورات کے مطابق نہیں ہے لہٰذا اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ شیطانی جمہوریت سے فیض یاب ہونےوالے طبقات اور افراد کبھی موجودہ جمہوری سیاسی نظام کو تبدیل نہیں ہونے دینگے۔ موجودہ نظام عوامی طاقت سے ہی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے نوجوان عوام کو منظم، متحد اور باشعور کریں اور عوامی طاقت سے انقلاب برپا کرکے اقتدار عوام دشمنوں سے چھین لیں اور قائد و اقبال کے تصورات کے مطابق نیا جمہوری و سیاسی نظام تشکیل دیں۔ موجودہ ریاستی نظام کو ہم نے ستر سال آزما کردیکھ لیا ہے۔ اس نظام نے مسائل حل کرنے کی بجائے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ شیطانی جمہوریت کو روحانی اور سماجی جمہوریت بنانے کی ضرورت ہے جو اخلاقیات کی پابند ہو۔ موجودہ جمہوری سیاسی نظام ناکام ہوچکا، نوجوان اس کو تبدیل کرنے کیلئے جدوجہد کریں اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں قائد و اقبال کا پاکستان بنائیں۔