• news
  • image

:::قصور اپنا نکل آیا!!!

معاملہ مشال خان ایسے دھرتی کے مظلوم کی برہنہ نعش کا ہو یا نورین لغاری ایسی بھٹکی ہوئی طالبہ کا‘ قضیہ مشال خان پر ظلم و ستم کے کوہ گراں توڑنے والے بدکردار نوجوان وجاہت اور اسکے ساتھی طالب علموں کا ہو یا کسی اور دہشت گرد کا‘ ان تمام نوجوانوں کا کردار انکے اپنے عہد کے پیشوا¶ں‘ اساتذہ‘ میڈیا اور رہنما¶ں کے مجموعی متزلزل کردار سے الگ ہو کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ اقبال نے بھی اپنے عہد کے نوجوانوں بالخصوص طلبہ کا کردار اسی نکتہ نگاہ سے جانچا اور پرکھا تھا۔ ان کا کہنا تھا....
شکایت ہے مجھے یارب خداوندان مکتب سے
کہ شاہین بچوں کو سبق دے رہے ہیں خاکبازی کا
آج ہمیں بھی یہی قضیہ درپیش ہے‘ ہمارے مذہبی‘ سماجی اور سیاسی پیشوا نئی نسل کو جنونی‘ ضدی اور خود سر بنانے کی راہ پر گامزن ہیں۔ انکے اپنے نظریات و تصورات میں دین و مذہب‘ تہذیب و سیاست اور تمدن و عمرانیات کی کسی جمالیات کا کوئی عمل دخل ہی نہیں۔ اساتذہ نوجوان نسل کو بے تاثیری علوم و فنون پڑھا کر انہیں زندگی اور روشنی سے بے بہرہ بنا رہے ہیں۔ مذہبی اور دینی پیشوا اپنے اپنے مخصوص عزائم کے تحت غیر جمالیاتی ترجیحات کا پرچار کر رہے ہیں۔ دانشور ہیں کہ کھلے حقائق کی نفی کرنے پرتلے ہوئے ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اساتذہ خود کو سیکولر اور لادین بنا کر پیش کرنے میں تفاخر محسوس کرتے ہیں۔ وہ اپنی اس دریدہ فکری کا زیادہ تر مظاہرہ کلاسوں میں معصوم طلباءکے سامنے دبے الفاظ میںکرتے ہیں جبکہ طلباءانکے منظور نظر بن کر زیادہ نمبر لینے کی تگ و دو میں مشغول پائے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں حقائق بہت ہی تلخ اور تکلیف دہ ہیں۔ جس ملک میں ڈاکٹر مبارک علی ایسا م¶رخ اور استاد سخت ڈھٹائی کے ساتھ پاکستان کے اساسی حقائق کی نفی کرے اور انہیں توڑ موڑ کر پیش کرتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا پر آکر کہے کہ قرارداد پاکستان کا مسودہ سر ظفر اﷲ نے تحریر کیا تھا‘ یہی نہیں پھراس نام نہاد م¶رخ کو سوائے ڈاکٹر صفدرمحمود کے کوئی جواب دینے والا بھی نہ ہو تو وہاں کی نوجوان نسل منتشر الخیالی کا شکار کیوں نہ ہو؟ افسوس آج پاکستان کے اساسی نظریات و حقائق کے محاذ پر مجید نظامی مرحوم ایسا کوئی بھی مرد مجاہد موجود نہیں‘ آج وہ ہوتے تو ڈاکٹر مبارک علی کو قرارداد پاکستان کے بارے ہرزہ سرائی کی جرا¿ت نہ ہوتی۔ پھر المیہ یہ بھی ہے کہ نظریاتی سرحدوں پرہماری حکومتیں‘ لیڈر اور سیاستدان قرارداد مقاصد سے یکسر روگردانی کرتے نظر آتے ہیں۔ لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے حکمران‘ سیاستدان‘ استاد‘ مذہبی وسماجی پیشوا اور میڈیا کا نقطہ نظر اور ترجیحات بدل چکی ہیں۔ وہ اپنے دین و مذہب کی روح‘ اپنی مٹی اور وطن کی اساس سے جڑا ہوا نظر نہیں آرہا۔ یہی وجہ ہے اسکی پراگندہ خیالی کے زیر اثر سانس لینے والی نئی نسل کا ایک حصہ بے راہ روی کی ایسی ڈگر پر چل نکلا ہے‘ جو شاید ساری قوم کا منہ کالا کر دینے کیلئے کافی ہے۔ ہمارے نوجوان طلبہ میں ہمدردی‘ نرم مزاجی‘ برداشت اور حلیمی کے طبعی اوصاف ہونے چاہئیں تھے لیکن وہ اپنے ہی ہم مکتب و دوست مشال خان پر سفاکانہ اور ظالمانہ انداز میں ڈنڈوں‘ گولیوں‘ گھونسوں اور ٹھڈوں کی بے پناہ بارش کرتے نظر آتے ہیں۔ پھر یہی نہیں جب اسکی نعش برہنہ حالت میں پڑی ہے اس پر اینٹوں اور پتھروں کی یلغار بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس موقع پر کوئی اپنے ان دینی پیشوا¶ں کو بلائے جو خوش الحانی سے گا گا کر اسلام کی رحم دلی کے قصے سناتے ہیں۔ کوئی ہے جو مشال خان پر ظلم و ستم کے دوران اﷲ اکبر کے نعروں کی غرض و غائت بیان کر سکے اور ان دینی و مذہبی رہنما¶ں کو سنا سکے جو قال اﷲ و قال الرسول کے تذکرے اپنے لحن دا¶دی سے سناکر مسلمانوں سے داد وتحسین سمیٹتے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا رسم اذاں رہ گئی روح بلالیؓ نہ رہی‘ آج اساتذہ کے ساتھ ساتھ ہمارے والدین بھی کوتاہی اور عدم توجہی کا شکار ہیں۔ کہاں سے لائیں وہ والد جس نے اپنے نو عمر بیٹے کودین و مذہب کی روحانیت و جمالیات یوں سمجھائی تھی....
سہ نشانی عاشقاں را اے پسر
رنگ زردو آہ سرد و چشم تر
آج ہماری نوجوان نسل کا ایک اہم حصہ اس دینی و مذہبی جمالیات سے خالی ہوچکا‘ جبھی تو نورین لغاری دھوکہ دہی کا شکار ہو کر ایم بی بی ایس کی راہ چھوڑ دہشت گردوں کے پاس چلی گئی۔ یہ برین واشنگ کیا چیز ہے؟ بچوں کی تربیت میں کمی ہو تو یہ اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ ہم کیوں نہیں کہتے قصور ہمارا اپنا ہے۔ اٹھتے بیٹھتے مذہب‘ دین اور ادبیات کے اخلاق اور طریقہ زندگی کی بات کرتے ہیں‘ لیکن اس کا سبق اپنی نوجوان نسل کو پڑھانے سے قاصر ہیں۔ ہمارا دانشور‘ شاعر اور ادیب خود اپنی نظریاتی کشمکش میں مبتلا ہے‘ وہ خود مطمئن نہیں‘ نوجوان نسل کو کیا مطمئن کرےگا۔ شعری ادب کی کوئی راہ متعین نہیں۔ ہمارا شاعر ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے۔ اسی لئے پورے ملک میں بے مقصد مشاعرہ بازی کا رحجان زورپکڑ گیا ہے۔ آج شاعری انسان کو اونچا نیچا دکھانے کےلئے ہے‘ اظہار تفاخر کےلئے اس کا بے جا استعمال ہو رہا ہے۔ نوجوان نسل اس شاعری و ادب سے یا تو بھاگ جاتی ہے یا پھر اسکے باطن سے ابہام کشید کر کے بے راہ رو ہو جاتی ہے۔ ادھر اساتذہ کو اپنے اپنے گریڈوں اور منصب و جاہ کے امور سے ہی فرصت نہیں‘ وہ ہما شما دیگرے نیست کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ شاگردوں کےلئے انکے پاس کلاس کے علاوہ اور کوئی وقت نہیں‘ انہیں طلباءکے مستقبل سے بھی کوئی سروکار نہیں۔ رہی بات میڈیا اور سوشل میڈیا کی تو ان جڑواں کرداروں کا کوئی والی وارث نہیں‘ پرنٹ میڈیا میں سوائے نوائے وقت گروپ اور چند دیگراخباروں کے کوئی مشنری نہیں رہا۔ اسے کوئی پرواہ نہیں کہ نوجوان نسل اسکے روبرو بیٹھی ہے‘ عدم برداشت‘ بے صبری اور ضد کے عناصر نوجوان یہاں سے اخد کرتے ہیں‘ سیاستدانوں کو لڑتے جھگڑتے دیکھ کر وہ جو تاثر لیتے ہیں‘ اس میں بھی ایسے منفی عناصر در آتے ہیں‘ ابہام اور تضادات انکے ذہنی خلیوں میں رچ بس گئے ہیں‘ تاہم سوشل میڈیا کی کرپشن اور منفی ڈگر تیکنیکی اعتبار سے بھی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ مشال خان نے کئی ماہ پہلے اپنے جعلی اکا¶نٹ بارے بتا دیا تھا‘ لیکن مخالفین نے اپنی منفی سرگرمیاں جاری رکھ کر اسے خوب بدنام کیا اور پھر قتل کر دیا ولی خان یونیورسٹی میںوائس چانسلر نہ ہونے کے سبب ہر کلرک وی سی بنا ہوا ہے۔ یہ تمام ریشہ دوانیاں اسکے قتل کا سبب بنیں‘ متذکرہ بالا تمام کھلے حقائق سمیٹ کر سامنے رکھ لیں تو پھر قصور اپنا ہی نکل آتاہے‘ لہذا معاملہ مشال خان کا ہو یا نورین لغاری کا ہم خود ہی مجرم ہیں‘ خطا کار ہیںاور گہنگار بھی‘ خدا تو روز محشر ہمارا حساب لے گا ہی‘ کوئی ہے جو ہمارا یہاںبھی احتساب کر سکے؟

ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی

ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی

epaper

ای پیپر-دی نیشن