• news

”38فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے“

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) سینٹ خصوصی کمیٹی برائے محروم طبقات کو وزارت منصوبہ بندی کے حکام نے آگاہ کیا کہ فاٹا گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر این ایف سی ایوارڈ کا حصہ نہیں لیکن خصوصی پیکجز دیئے گئے ہیں، مئی میں منعقد ہونے والی قومی اقتصادی کونسل کے سامنے نیشنل فریم ورک رکھیں گے،صوبہ پنجاب نے ادارہ سماجی تحفظ بنا لیا ہے، دوسرے صوبوں میں بھی اس پر کام جاری ہے، ڈویژن کی سطح پر غربت کے خاتمے کے لئے سروے کرایا گیا ہے، فاٹا میں غربت 74فیصد اور قومی سطح پر 38فیصد ہے ۔ غربت کے پیمانے اور معیار کے بارے میں کرائے گئے سروے کا خصو صی کتابچہ بھی شائع کیا گیا ہے۔ بدھ کوسینٹ خصوصی کمیٹی برائے محروم طبقات کے کنونیئر سینیٹر نثار محمد مالاکنڈنے کہا ہے کہ یہ بات افسوسناک ہے کہ حکومت کی غربت کے خاتمے کے لئے قومی پالیسی ہے اور نہ ہی وفاقی وزارت موجود ہے۔ منصوبوں کی بجائے افراد پر توجہ مذکور کی جانی چاہئے۔ جو آئینی پابندی بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مخصوص علاقوں کے ترقیاتی منصوبوںکے لئے صوابدیدی اختیارات کا استعمال زیادتی ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے علاوہ ہماری حکومت کے پاس کوئی میکنزم نہیں۔ جس کے تحت ملک میں موجود محروم طبقات کی تفصیلات معلوم کی جا سکیں۔ حکومت معاشرے کے دیگر محروم طبقات کے اعداد و شمار کے حوالے سے بھی نظام وضع کرے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ سرکاری سروے کے مطابق ملک میں 38 فیصد آبادی غربت کی لکیر کی سطح سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔ کنوینر کمیٹی نے کہا کہ غربت کو چانچنے کےلئے پیمانے موجود نہیں۔ ایم ڈی جیز اور ایس ڈی جیز فنڈز وفاق کس طریقے سے استعمال کررہا ہے ۔ 2025ءوژن کے بارے میں منصوبہ بندی کیا کی گئی ہے۔ آگاہ کیا جائے کہ غربت ختم کرنے کے لئے کتنے منصوبے شروع کئے جائیں گے۔ پسماندہ علاقہ جات اور محروم طبقات میں فرق ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری بھی ضروری ہے لیکن وزارت منصوبہ بندی کو معاشرے کے محروم طبقات کے لئے بھی توجہ دینی چاہئے۔ پچھلے 4برسوں میں وزارت منصوبہ بندی نے ایم ڈی جیز کے 27ارب کہاں کہاں خرچ کئے ۔ حکومت اور وزارت منصوبہ بندی کی غفلت کی وجہ سے محروم طبقات مشکلات و مسائل میں مبتلا ہیں۔ مالا کنڈ ڈویژن میں 750ایسے یتیم بچے ہیں جن کے والدین دہشتگردی میں شہید ہوئے ۔ ان 750یتیم بچوں کی کوئی مدد نہیں کی جارہی ۔ 100ایکڑ زمین کے مالک بینظیر انکم سپورٹ سے مدد لے رہے ہیں ۔ حقدار محروم ہیں ۔ سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ واپڈا کے کوئٹہ دفتر کے چپڑاسی کے 6بچے تھیلیسیمیا کے مریض ہیں سرکاری مدد نہیں ملتی۔ معاشرے کے محروم طبقات 70سال سے نظرانداز ہیں۔ سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ دھماکوں سے کتنے بچے معذور ہوئے اور بینائی سے بھی محروم امداد کے منتظر ہیں ۔ اگلے اجلاس میں سیکرٹری کابینہ ڈویژن ، سربراہ ادارہ شماریات ، چاروں صوبوں اور فاٹا کے سیکرٹری پلاننگ سے بریفنگ لی جائے گی ۔
38فیصد /غربت

ای پیپر-دی نیشن