لاڑکانہ چلو (2) ....
عام طور پر گزشتہ کالم کا حوالہ نہیں دینا چاہئیے کہ ضروری نہیں کہ وہ چہار عالم کی نظروں سے گزرا ہو۔ مگر جن دوستوں کی نظروں سے گزرا انہوں نے شکوہ کیا کہ اب تو بھٹو خاندان کے حوالے سے پانچ دہائی پہلے لکھی جانے والی نظم ”لاڑکانہ چلو“ کا حوالہ دینا چھوڑ دو۔ پھر ایک دوست نے یہ بھی کہا کہ بھٹو صاحب کے حوالے سے شہرت پانے والی اس نظم کا تعلق بانی پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو سے نہیں اُنکے ٹیلنٹڈ کزن اور اُس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ ممتاز بھٹو سے تھا۔ اپنی کتاب ”جالب جالب“ میں اس نظم کے حوالے سے تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ اس کا نزول کس طرح ہوا۔ سال غالباً 1974 تھا۔ جالب صاحب ایک مشاعرے میں کراچی آئے تو ہم طلباءنے شام کو انہیں گھر بلایا کہ آج کونسی نئی نظم مشاعرے میں سنانے جا رہے ہیں۔ جالب صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ”لاڑکانے چلو۔۔ ورنہ تھانے چلو“۔ ہم نے مزید مصرعے سننا چاہے تو کہا رات کو مشاعرے میں۔ کٹرک ہال میں مشاعرہ اپنے شباب پر پہنچا۔ جالب صاحب یہ نظم بعد میں سنانا چاہتے تھے کہ عموماً اُن دنوں وہ اپنی نظم ”دستور“ سے پڑھنے کا آغاز کرتے تھے جس کا دورانیہ گھنٹے پر پھیل جاتا مگر جیسے ہی جالب صاحب مائک پر آئے ہزاروں کا مجمع جالب صاحب کی نظم کا مصرعہ پڑھ رہا تھا”لاڑکانے چلو۔ لاڑکانے چلو“۔ جالب صاحب ہر نظم سے پہلے اُس کا پس منظر ضرور بتاتے۔ کہنے لگے۔ لاہور میں تھا کہ ممتاز ٹی وی اینکر طارق عزیز کا فون آیا کہ لاڑکانہ میں شاہ ایران آئے ہوئے تھے۔ اُس وقت کی مشہور اداکارہ ”نیلو“ کو حکم ہوا کہ لاڑکانہ پہنچو تاکہ شاہ کے دربار میں رقص و سرور کی محفل کو چار چاند لگیں۔ یوں جالب صاحب کا کہنا تھا طارق عزیز کی تقریر جاری تھی۔ میری نظم تیار ہو رہی تھی۔
قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا
لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو
حاکموں کو بہت تم پسند آئی ہو
ذہن پر چھائی ہو
جسم کی لو سے شمع جلانے چلو
لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو
اس زمانے میں ٹی وی اور سوشل میڈیا تو تھا نہیں۔ اخبارات تو شائع ہونے کا سوال ہی نہیں تھا مگر سینہ بہ سینہ سارے ملک میں یہ نظم پھیل گئی اور آج پچاس سال بعد بھی یہ زندہ ہے اور پیپلز پارٹی کے ماضی کی تاریخ اور سیاست پر ایک ایسی ”پھبتی“ بن چکی ہے جس پر پی پی کی آج کی قیادت تک شرمندہ ہوتی ہے حالانکہ اس نظم کے محرّک ممتاز بھٹو کا پی پی سے تعلق تو کیا اب تو وہ اُس کے بدترین مخالف میں سے ہیں۔ یہ لیجئیے ذکر ستار بھٹی کی کتاب ”لاڑکانہ لیڈروں کی دھرتی“ کا تھا۔ جس پر گزشتہ کالم میں‘ میں نے ”لاڑکانہ چلو“ کی سرخی جمائی تھی اور اس میں ستار بھٹی صاحب کی کاوش کا ذکر کرتے ہوئے اسے ایک تاریخی دستاویز قرار دیا تھا جن میں لاڑکانہ کی70 مشہور زمانہ شخصیات کی زندگی اور سیاست کو سمیٹا گیا ہے۔ گذشتہ کالم میں خان بہادر ایوب کھوڑو کا ذکر کیا تھا۔ آج کے کالم میں بھٹو صاحب پر بھٹی صاحب کے شخصی خاکے کی ایک جھلک دیکھیں۔ بلا شبہ بھٹو صاحب پاکستان کی سیاست کے انتہائی سحر انگیز اور مقبول ترین سیاستدان تھے۔ 5 جنوری سنہء1928 کو پیدا ہوئے۔ بین الاقوامی اداروں سے بیرسٹری کی تعلیم حاصل کی۔ 1956 میں اُس وقت کے صدر اسکندر مرزا کی حکومت میں نہ صرف وزیر ہوئے بلکہ اقوام متحدہ میں جا کر پاکستانی نمائندے کی حیثیت سے اپنی خطابت کی دھوم بھی مچائی۔ اکتوبر1958 میں ایوب خان کا مارشل لاءآیا تو ایوب خان کی کابینہ میں وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم ہوئے مگر نوجوانی سے ان کی نظریں اُس عہدے پر تھیں جس سے وہ ساری دنیا میں اپنا لوہا منوائیں۔ سو سنہء64 19میں وزیر خارجہ ہوئے۔ 1965 کی جنگ کے بعدسلامتی کونسل میں تقریر اور پھر تاشقند ڈکلیئر یشن اور بعد میں ایوب خان سے اختلاف کے بعد وزارت خارجہ سے استعفیٰ ایک ایسی طویل تاریخ ہے جو ایک کتاب کی متقاضی ہے۔ نومبر1967 میں پیپلز پارٹی بنائی۔ ایک طویل سیاسی جدوجہد کے بعد سنہء1970 کے انتخابات میں وطنِ عزیز میں دوسری بڑی پارٹی کے قائد بن کر اُبھرے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد دسمبر 1972 میں وزیر اعظم بنے اور پانچ سال حکومت کی۔ کارہائے نمایاں اس دوران بڑے بڑے ہیں مگر بھٹو صاحب کے اندر کا فیوڈل اور اُنکی مطلق العنانیت نے مارچ 1977 کے آتے آتے اُنہیں غیر مقبول لیڈر بنا دیا جس کے بعد فوجی حکمراں جنرل ضیاءالحق کو اُن کو اقتدار سے اُتارنا اور پھانسی پر چڑھانا کوئی بہت زیادہ مشکل نہ تھا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بھٹو صاحب کی شاندار سیاسی زندگی اور عوام کی اُن سے والہانہ محبت نے اڑتیس سال بعد بھی ”بھٹوز“ کے نام کو زندہ رکھا ہے اور آج بھی گڑھی خدا بخش کے قبرستان سے بھٹو خاندان پاکستان کی سیاست پر راج کر رہا ہے۔ ستار بھٹی صاحب نے بھٹو صاحب کی 51 سالہ زندگی کا بڑی دلکشی سے نقشہ کھینچا ہے۔ اُن کی سیاست کے آغاز اور انجام کو ستار بھٹی صاحب کس طرح سمیٹتے ہیں ذرا اس کی ایک جھلک دیکھیں۔
بھٹو صاحب کی سیاست عام رواجی نہ تھی، زندگی بھی عام نہ تھی اورموت بھی عام نہ تھی۔ 51 سالہ اس شخصیت کیلئے دنیا کے تمام سربراہانِ مملکت نے اپیل کی، تاہم پاکستان کے کسی سیاستدان نے اپیل نہیں کی۔ 127 افراد نے خود سوزی کی اور پھانسی پر چڑھ گئے، ”جئیے بھٹو“ کے نعرے پر پندرہ کوڑے کھانے والے سینکڑوں ورکر دیکھے، انکی شخصیت ایک دیو مالائی دیوتا جیسی تھی اور ہمیشہ رہے گی۔ وہ زندہ تھے تو بھی پارس اور پھانسی پر چڑھ کر بھی شہید کہلاتے ہیں۔ آج تک اُن کےلئے گیت ”جئیے بھٹو“ گائے جاتے ہیں۔ کئی کتابیں، ناول لکھے گئے۔ آپکی شہادت نے بھی اہلِ قلم کو دوام بخشا۔ تاریخ سب کے ساتھ انصاف کرتی ہے۔ والٹئیر کو دفن کرتے وقت کوئی بھی فرینچ پادری تیار نہ تھا۔ تاہم تیس یا چالیس برس بعد اُنکا تابوت پرویشیا سے فرانس لایا گیا تو وہ قومی ہیرو بن چکے تھے۔ بھٹو صاحب کو بھی تاریخ نے وہی مقام دیا کہ اندھیرے میں چند لوگوں سے نمازِ جنازہ پڑھانے کے بعد تدفین کر کے بعد میں پھانسی یا موت کا اعلان کیا گیا۔ لیکن آج بھی اُنکے چاہنے والی تیسری نسل عقیدت سے مزار پر سلام کرنے جاتی ہے۔ یہ واحد سیاستدان تھے کہ جن کو تاریخ، علم، ادب، فن، فلسفہ، ہنر، ثقافت، فلم، کھیلوں، سائنس، قانون، موسیقی اور زراعت کے علاوہ عالمی امور پر گہری دسترس حاصل رہی۔ اُنہوں نے تاریخ کے حوالے سے ملکی و بر اعظم میں آئندہ 20 سے 50 برس بعد تبدیلیوں کے متعلق اپنی کتابوں، مضامین اور تقاریر میں پیش گوئی کی جو کہ وقت کے ساتھ سچ ثابت ہو رہی ہیں۔ بھٹو صاحب نے آخری ایام کے دوران باوجود جسمانی کمزوری کے سپریم کورٹ میں خود مسلسل تین دن تک مقدمے کے حوالے سے تقریر کرتے ہوئے عدالت کو مخاطب کیا کہ ”میں سندھ کا دودا ہوںمیں مومل کو پاﺅں گا میں رانو ہوں“ اور ”یہ وقت بتائے گا کہ کون کامیاب رہا اور کون آخری مسکراہٹ حاصل کریگا“۔ جو لوگ تاریخِ سندھ سے واقف ہیں اُنکو مومل، رانو اور دودو کی داستان یاد ہو گی۔(جاری ہے)