انصاف کی فراہمی کیلئے ایک ٹیم بن کر کام کرنا ہو گا: چیف جسٹس
لاہور (وقائع نگار خصوصی) چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ججز کے پاس من مرضی اور منشا کے مطابق فیصلے کرنے کا اختیار نہیں ہے، ہمیں قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ ہم اپنے فرائض کی انجام دہی اور اس قوم کیلئے کام کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ اگر ہم جلد اور معیاری انصاف کی فراہمی میں انقلابی کام نہ کرسکے تویہ ہماری ناکامی ہوگی اور اس کیلئے خود کو کبھی معاف نہیں کر پائیں گے۔ پنجاب میں ماڈل کورٹس اور مصالحتی مراکز کے قیام کے حوالے سے سمپوزیم سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ پائلٹ کریمینل جسٹس پراجیکٹ اور اے ڈی آرز سنٹرز کی کامیابی کا سہرا ان پراجیکٹس سے منسلک سٹیک ہولڈرز کے سر ہے۔ قانون میں تبدیلی لائے بغیر کریمینل جسٹس میں خاطر خواہ نتائج حاصل کئے ہیں اور یہ اس بات کا مظہر ہے کہ اگر خواہش اور دلچسپی ہوتو موجودہ قوانین کے تحت بھی فوری اور معیاری انصاف یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ مذکورہ پراجیکٹس سے منسلک ججز، وکلاء اور دیگر سٹیک ہولڈرز نے ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ انصاف کرنا آسان تو نہیں ہے۔ زندگی موت کے معاملے ہوتے ہیں۔ سزا و جزا کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے ججز کیلئے اولین ضروری ہے کہ وہ ہمہ وقت قانون سے مسلح ہوں۔ جب تک ججز کو قانون پر دسترس نہیں ہوگی تو وہ سول مقدمات میں جلد فیصلے نہیں کر سکیں گے۔انہوں نے ججز سے کہا کہ ایسے فیصلے دیں جو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج نہ ہوں اور اگر ہوں تو آپ کے فیصلے قائم رہیں۔ ہمارے پاس وقت قلیل ہے ، اس لئے موجودہ قوانین کے تحت ہی لوگوں کے اعتماد پر پورا اترنا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ اصلاحات کا عمل بھی جاری رکھنا ہے۔ وکلا ایسے فورم بنائیں جہاں اس حوالے سے بحث و مباحثے ہوں تاکہ قوانین میں بہتری لائی جا سکے۔ وکلاء کے تعاون کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکیں گے۔ ہمیں اس پر جلدی نہیں ہے۔ یہ کام ہم سکون کے ساتھ مکمل غور حوض کے ساتھ کریں گے تاکہ کسی غلطی کی کوئی گنجائش نہ رہے۔ جس شخص کا حق مارا جاتا ہے وہ عدالت میں تاریخ ملنے پر بہت مایوس ہوتا ہے۔ اگر عدالت میںجج حاضر ہو اور وکیل بھی موجود ہو تو پھر تاریخ دے دی جائے تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس میں صرف دو ہی صورتیں سامنے آتی ہیں۔ یاتو وکیل کیس سنانا نہیں چاہتا یا جج سننا نہیں چاہتا۔ یہ دونوں صورتیں ہی سائلین میں مایوسی کا سبب بنتی ہیں۔ انسان کا وجود اور انصاف کی طلب ایک دوسرے سے جد ا نہیں ہوسکتے۔ چھوٹے سے چھوٹے معاشرے میں بھی کسی انسان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہوگی اوراس بناء پر اختلافات جنم لیتے ہوں گے اور ان مسائل کے حل کیلئے وہاں کوئی ایسا شخص بھی موجود ہوگاجس کی ایمانداری پر سب کو اعتماد ہوتا ہوگا۔ جسے وہ منصف سمجھتے ہوں گے۔ انصاف کی یہ ابتدائی شکل اپنی ارتقائی مراحل طے کر تے ہوئے آج ایک ادارے کی شکل اختیار کر چکی ہے لیکن منصف میں غیرجانبداری، آزادی، سوچ اور دیانتداری کے عناصر ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ آ ج یہ ادارہ مختلف قوانین کے طابع ہے اور منصف کوانہی مروجہ قوانین کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ امریکہ میں جب بیس پچیس سال پہلے اے ڈی آر سسٹم شروع ہوا تو وہاں بھی سب سے بڑی مزاحمت وکلاء کی صورت میں سامنے آئی۔ لیکن آج وہاں اے ڈی آر سب سے زیادہ کامیاب ہے۔ کسی بھی نئے نظام کو اپنانے میں وقت لگتا ہے اور ہمیں امید ہے پاکستان میں مصالحتی نظام سے عدلیہ میں بہت بہتر اور مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ کسی بھی جرم کی میڈیا میں تشہیر بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ میڈیا تمام گواہ اور ثبوت دکھا دیتا ہے لیکن یہ چیزیں ہمارے تفتیشی افسروں کو نظر نہیں آتیں۔ کمزور تفتیش کی بنیاد پر ملزم رہا ہوجاتے ہیں اور ساراالزام عدالتوں پر آجاتا ہے۔ پولیس کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا اور درست تفتیش سے گہنگاروں کو انکے انجام تک پہنچانے میں معاونت کرنا ہوگی۔ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ زندگی میں ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ انسان کوئی خواب دیکھے اور اپنی آنکھوں کے سامنے اسکی تعبیر بھی دیکھے لیکن وہ اس معاملے میں بہت خوش نصیب ہیں۔ پولیس کریمینل جسٹس سسٹم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر پولیس عدالتوں کی مثبت انداز میں معاونت کرتی رہے گی تو یہ سسٹم کامیابی سے چلتا رہے گا۔ صرف زیادہ سے زیادہ مقدمات کو نمٹانا ہی انصاف نہیں ہے بلکہ انصاف یہ ہے کہ مقدمہ میں فیصلہ کتنا معیاری ہے۔ مقدمات کے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا ضروری ہے۔ اگر ضلعی سطح پر معیاری انصاف فراہم کیا جائے گا تو اعلیٰ عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بہت کم ہو جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ فیصلہ کروتو انصاف کے ساتھ کرو اور امانت داروں کو انکی امانت لوٹا دو۔ بطور جج تو انصاف کرنا ہماری ذمہ داری ہے لیکن یہ امانت کیاہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روزانہ جاری ہونے والی کاز لسٹ ہمارے پاس امانت ہوتی ہے۔ ہم نے اس کاز لسٹ کے مطابق تمام مقدمات کو سننا ہوتا ہے اور یہ سائلین کی جانب سے ہمارے پاس امانت ہوتی ہے۔ کریمینل جسٹس پائلٹ پراجیکٹ کے پیچھے بنیادی اصول تھا کہ جن مقدمات میں ریاست مدعی ہوتی ہے اس میں جلد انصاف کی فراہمی یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ عدالت کو مکمل طور پر معاونت فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ چودہ روز میں تفتیش مکمل کرنا اور سترہ روز میں چالان پیش کرنا پولیس پر قانونی فرض ہے اور چالان پیش ہوجانے کے بعد وقت پر عدالتی معاونت کرنا پراسیکیوشن اور عدالتوں میں ملزموں کی بروقت پیشی جیل حکام کی ذمہ داری ہے۔ اگر اسی طرح تمام ادارے اپنی اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن پوری کریں گے تو کوئی شک نہیں لوگوں کو انکی سوچ سے بھی پہلے انصاف ملے گا۔ لیکن اگر انصاف کی فراہمی میں لیت و لعل سے کام لیا جائیگا یا مقدمات کو لمبا کرنے میں مختلف حربے استعمال کئے جائیں گے تو پھر یہ گناہ ہم سب کے کندھوں پر ہوگا۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عہدہ سنبھالا تو انکے سامنے دو آپشنز تھیں۔ ایک تو سسٹم کو اسی طرح چلنے دیتے اور دوسرا کچھ محنت کرکے اس سسٹم میں بہتری لاتے اور سائلین کیلئے آسانیاں پیدا کرتے۔ انہوں نے دوسرے آپشن پر عمل کیا اور پنجاب کی عدلیہ میں خاطر خواہ اصلاحات لائی گئی ہیں اور مزید کام جاری ہے۔ ہمیںہر قدم پر وکلاء کا ساتھ چاہیے۔ تمام اقدمات کا مقصد عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانا ہے۔ علاوہ ازیں خبررساں ایجنسیوں کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ اپنی عزت کی حفاظت سب سے اہم بات ہے کیونکہ ججز کو بہت سی جگہوں پر لوگ استعمال کر جاتے ہیں اور بعض اوقات جج کو پتہ ہی نہیں ہوتا۔ انصاف کی فراہمی کیلئے ہمیں ایک ٹیم بن کر کام کرنا ہوگا۔انصاف فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے اگر آج ہم اپنا کام نہ کر سکے تو میں یہ ضرور کہوں گا کہ میں اپنی ڈیوٹی مکمل نہیں کرسکا۔ فرض پورا نہ کرسکا تو خود کو معاف نہیں کر پائوں گا۔ یہ کام ایک آدمی کے بس کی بات نہیں ہم سب کو ملکر کام کرنا ہوگا۔ ججز سمیت ہر کسی پر عدم اعتماد کا فقدان ہوگیا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ایک وقت تھا جب ریاست اپنے فرائض کی ادائیگی سے پیچھے ہٹ چکی تھی لیکن اب ریاست نے قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے اپنا فرض ادا کرنا شروع کردیا ہے۔