• news
  • image

آفریدی ن لیگ کے گھوڑے پر‘ عمران کا ویلکم !!!

شاہد آفریدی کا شمار عوامی سطح پر مقبول کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ حقیقی معنوں میں ایک " کراوڈ پلر" کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کھیل کے میدانوں سے رخصت ہونے کے بعد بھی انکی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ شین وارن نے اپنے بہترین سو کھلاڑیوں میں 99 ویں نمبر پر رکھتے ہوئے ایک اینٹرٹینر قرار دیا تھا۔ اسمیں کچھ شک نہیں کہ شاہد آفریدی نے متعدد میچوں میں تن تنہا قومی ٹیم کو فتح دلائی ہے۔دو ہزار سولہ میں کھیلے گئے ایشیا کپ اور ورلڈ ٹونٹی ٹونٹی میں قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد شاہد آفریدی ٹیم سے ڈراپ ہوئے اور اب وہ میدان سے باہر اپنی فاونڈیشن کے ذریعے فلاحی کاموں میں مصروف ہیں۔ ٹیم سے ڈراپ ہونے کے بعد انہوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ سے فئیر ویل میچ کا تقاضہ کیا۔ ایک سال کی میڈیا کیمپین اور دیگر سیاسی ذرائع استعمال کرنے کے باوجود بھی وہ انٹرنیشنل میچ کا فئیر ویل لینے میں ناکام رہے۔ شاہد آفریدی کیطرف سے بار بار الوداعی میچ کا تقاضہ کرنیکی وجہ سے بعض حلقوں کیطرف سے انہیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ واقفان حال بتاتے ہیں کرکٹ بورڈ کا انکار کی ایک وجہ ممکنہ تنقید بھی ہے ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے وہ ایک محفوظ راستے کی تلاش میں تھے اور نجم سیٹھی کی ورلڈ الیون کیخلاف میچ کھیلنے کی پیشکش نے انہیں فئیر ویل تنازعہ سے نکلنے کا بہترین موقع فراہم کیا۔ اس سے پہلے کرکٹ کے بااثر حلقوں میں یہ خبر بھی گردش میں رہی کہ شاہد آفریدی کے لیے بین الاقوامی الوداع میچ کے لیے ایوان وزیراعظم سے آنیوالی خواہش کو قومی ٹیم کے چیف سلیکٹر انضمام الحق نے پورا نہیں کیا تھا بعد ازاں کرکٹ بورڈ کے چند بڑے بھی انکار کرنےوالوں کی فہرست میں شامل ہوئے اور اسکی وجہ زمینی حالات بنے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان کا کہنا تھا کہ شاہد آفریدی کی خواہش پوری کرنے کے لیے ایک غلط روایت کیسے قائم کر دیں۔ کیا سعید اجمل کسی سے کم حقدار ہیں۔ شاہد آفریدی نے کرکٹ بورڈ کی حالیہ پیشکش پر موقف اختیار کیا کہ وہ ایک ٹرینڈ سیٹ کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے مصباح الحق اور یونس خان کو مناسب انداز میں الوداع کرنے کے ٹرینڈ کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس روایت کو جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ کرکٹ بورڈ نے شاہد کو باوقار انداز میں رخصت کرنے سے کبھی انکار نہیں کیا اور کرکٹ بورڈ کیطرف سے مصباح الحق اور یونس خان کو فئیر ویل دینے کا آفریدی کے انکار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ملک کے مقتدر سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی گردش میں ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے انہیں عمران خان کے مقابلے میں انتخابی مہم میں میدان میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انٹرنیشنل الوداعی میچ کا مطالبہ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ شاہد آفریدی کی عوامی مقبولیت کو برقرار رکھنے کے لیے انکا ٹوئٹر اکاونٹ حکمراں جماعت کا مشہور زمانہ میڈیا سیل آپریٹ کر رہا ہے۔ شاہد آفریدی کے عوامی رابطے کو مستقل رکھنے کے لیے حکمت عملی تیار کی گئی ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے شاہد آفریدی کو فئیر ویل دینے سے کبھی انکار نہیں کیا تھا۔ دو بڑے ٹورنامنٹس میں ناکامی کے بعد وہ ملکی کرکٹ سے الگ ہوئے نتائج سے قطع نظر ٹونٹی ٹونٹی ورلڈ چیمپئن شپ کے موقع پر باوقار انداز میں کھیل کے میدانوں سے رخصتی کا اچھا موقع انہوں نے ضائع کیا۔ اب اگر وہ سیاسی اننگز کھیلنا چاہتے ہیں تو انہیں خوش آمدید کہنا چاہیے وہ سیاست ضرور کریں لوگ انہیں ووٹ بھی دیں گے لیکن کسی کا سیاسی کھلونا بننا انکے لیے مناسب نہیں ہو گا۔ کرکٹ کے زمانے میں وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے سیاستدانوں کو استعمال کرتے رہے ہیں جیسا کہ کرکٹ بورڈ کے چئیرمین اعجاز بٹ کے دور میں بھی ہوا تھا۔ اب اگر وہ خود سیاسی میدان میں آتے ہیں تو مصلحت سے کام لینا پڑ سکتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور عالمی کپ انیس سو بانوے کے فاتح کپتان عمران خان نے چند ماہ قبل ہمارے ایک دوست کیساتھ شاہد آفریدی کے سیاسی کردار پر گفتگو کی تو عمران خان نے جواب میں کہا کہ" شاہد آفریدی اگر سیاست میں آتے ہیں تو مجھے خوشی ہو گی۔ قومی ہیروز کو سیاست کے میدان میں بھی قوم کی خدمت کرنی چاہیے۔ شاہد سیاست میں آئے وہ کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ بنے میں اسے ویلکم کرونگا"۔
شاہد آفریدی کرکٹ میں قومی ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں بعد از کرکٹ لوگ انہیں کھیل سے زیادہ کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ کرکٹ کے میدان میں غلطیوں کے باوجود انہیں پسند کیا جاتا رہا ہے لیکن سیاسی میدان میں ایسا ہونے کے امکانات کم ہیں۔ سیاست اور طاقت کے کھیل میں حالات،واقعات اور ضروریات بدل جاتی ہیں۔ پسندیدہ ناپسندیدہ بن جاتا ہے۔ ماضی میں ایک دوسرے کو پسند کرنیوالے آج دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ اسکی سب سے بڑی مثال میاں نواز شریف اور عمران خان ہیں۔ لاہور کے شوکت خانم ہسپتال میں آج بھی نواز شریف اور عمران خان کی تصویر آویزاں ہے لیکن آج دونوں کے راستے جدا ہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن