وزیراعظم کے استعفیٰ کیلئے چلائی جانیوالی متوقع وکلاء تحریک اختلافات کا شکار
اسلام آباد (محمد صلاح الدین خان) پانامہ پیپرز لیکس فیصلے کے تناظر میں وزیراعظم محمد نواز شریف سے استعفے کے مطالبے کے لئے چلائی جانے والی متوقع ’’ وکلاء تحریک‘‘ شروع ہونے سے پہلے ہی دم توڑ گئی، وکلاء اختلافات کا شکار، دھڑوں میں تقسیم ہوگئے۔ پاکستان بار کونسل کی جانب سے مشاورتی کنونشن میں یہ اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ۔ جمعہ کو پاکستان بار کونسل کے زیر اہتمام وفاقی دارالحکومت میں منعقد ہ وکلا کنونشن میںسپریم کورٹ بار کے اراکین نے جزوی طور پر شرکت کی جبکہ بار کے صدر اور سیکرٹری نے کنونشن کو مسترد کرتے ہوئے شرکت سے انکار کردیا ۔ کنونشن میں موجود وکلاء نے سپریم کورٹ بار کے صدر رشید اے رضوی اور جنرل سیکرٹری آفتاب باجوہ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بار میں گروپ بندی وکلا کے اتحاد اور ان کی تحریک کو کمزور کرے گی، وکلا برادری کا کام سیاست کرنا نہیں بلکہ عدلیہ کو مضبوط کرنا اس کے فیصلوں پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کروانا ہے، وکلا میں تقسیم گروپ بندی عدلیہ، جمہوریت اور پاکستان کے استحکام کیلئے زہر قاتل ہے ۔ شرکاء نے کہا کہ حامد خان گروپ اختلافات کو آخری حد تک لے جارہا ہے جس کا نقصان پوری وکلاء برادری کو ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بار کے 20مئی کو ہونے والے لاہور میں وکلاء کنونشن کا اب کوئی جواز نہیں رہا کیونکہ پاکستان بار کونسل وکلاء کی سب سے بڑی ریگولیٹری باڈی ہے جس کے فیصلوں کی تمام بار ز پابند ہیں۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ گروپ بندی مستقبل میں وکلاء کے درمیان بڑے تصادم کا باعث بن سکتی ہے، اگر کچھ وکلاء بارز نے پانامہ معاملے کو قانونی کی بجائے سیاسی بنانے کی کوشش کی اور پاکستان بار کونسل کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی تحریک شروع کی تو یہ نہ صرف ناکام ہو گی بلکہ وکلاء میں تصادم کا بھی باعث بنے گی۔