• news

چمن: فلیگ میٹنگ پھر ناکام‘ سرحدی دیہات خالی

کوئٹہ/ پشاور/ سیالکوٹ (بیورو رپورٹ+ نامہ نگار+ نوائے وقت رپورٹ) چمن میں افغان سکیورٹی فورسز کی اشتعال انگیزی اور گولہ باری کے بعد باب دوستی گزشتہ روز بھی بند رہا، تعلیمی ادارے بھی بند رہے‘ شیلنگ سے متاثرہ علاقوں میں پاک فوج اورایف سی اہلکارز تعینات کردیئے گئے جبکہ فلیگ میٹنگ دوسرے روز بھی ناکام رہی۔ فریقین اپنے اپنے مئوف پر قائم ہیں۔ زیروپوائنٹ سے ملحقہ علاقے خالی کرالئے گئے۔ سرحدی دیہات سے آبادی محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی کرگئی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے اگر ہماری سرحدوں پر مزید کارروائی کی گئی تو بھرپور جواب دینگے۔ واقعہ دہلی کابل گٹھ جوڑ کا عکاس ہے۔ ادھر سرحد پر دونوں اطراف گاریوں کی لمبی قطاریں موجود ہیں۔ تجارتی سرگرمیاں اور نیٹو سپلائی بھی معطل رہی۔ پی ڈی ایم اے بلوچستان نے چمن میں ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ایمرجنسی سیل قائم کردیا جہاں پانچ ایمبولینس،طبی عملہ اور ادویات موجود ہیں ۔ ادھر طورخم سرحد معمول کے مطابق کھلی رہی ۔ پولیٹیکل انتظامیہ کے مطابق طورخم سرحد پر دونوں جانب حالات معمول کے مطابق ہیں۔ قبل ازیں پولیٹیکل انتظامیہ نے جمعہ کے روز چمن میں فائرنگ کے بعد سرحد غیر معینہ مدت کیلئے بند کرنے اور کرفیو کا اعلان کیا تھا۔ دونوں جانب کشیدگی برقرار رہی۔افغان سرحد سے ملحقہ 4کلومیٹر کے علاقے کو نو مین ایریا قرار دیدیا گیا فضائی نگرانی کی جارہی ہے۔ 9 افراد کی شہادت پر دوسرے روز بھی فضا سوگوار رہی۔مردم شماری کا عمل بھی معطل رہا۔چمن شہر میں تعلیمی ادارے اور مرکزی تجارتی مراکز سمیت تمام دکانیں بھی بند رہیں‘ انٹرمیڈیٹ کے پرچے بھی ملتوی کردیئے گئے ۔صوبائی ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے چمن شہر میں راشن سے بھرے ٹرک بھی عوام کو خوراک فراہم کرنے کیلئے پہنچا دیئے گئے۔ 2 ہزار خاندان متاثر ہوئے۔ افغان خبررساں ادارے ’’خامہ پریس ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق افغان حکومت نے پاکستانی ناظم الامور کو وزارت خارجہ طلب کرکے قندھار کے ضلع سپین بولدک پر گولہ باری کے واقعے پر احتجاج ریکارڈ کرایا۔ وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ہمارا کوئی نقصان ہوا تو ہم بدلہ لیں گے۔ افغانستان کے اندرونی حالات سے توجہ ہٹانے کیلئے کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ افغانستان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ہے۔ مثبت تعاون کی کوششیں جاری رکھیں گے۔تعلقات کی بہتری کی ہماری تازہ کوششوں کا افغانستان سے مثبت جواب نہیں آرہا۔ افغانستان کی جانب سے یہ سلسلہ سال ڈیڑھ سال سے جاری ہے۔ افغانستان اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ ہیں، ملکر لڑیں گے۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے صرف ’’میڈ اِن پاکستان‘‘ حل ممکن ہے۔ قبل ازیں جمعہ کی شام باب دوستی پر منعقد ہونے والی پاک افغان فلیگ میٹنگ بھی بے نتیجہ رہی تھی۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں ہر صورت میں مردم شماری کی جائے گی۔ افغان مؤقف ہے کہ کلی لقمان اور کلی جہانگیر غیر منقسم دیہات ہیں، پہلے حدود کا تعین کیا جائے ۔ سیالکوٹ سے نامہ نگار کے مطابق خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ افغانستان اپنے اندرونی حالات سے نگاہ ہٹانے کیلئے ایسی کارروائیاں کر رہا ہے۔ ہماری کوششیں ہیں کہ دونوں ممالک میں ہم آہنگی پیدا ہو لیکن دوسری جانب سے مثبت جواب نہیں مل رہا۔ ٹیکس بار ایسوسی ایشن کی تقریب حلف برداری کے اختتام پر گفتگو کرتے ہوئے خواجہ محمد آصف نے کہا کہ دہلی اور کابل گٹھ جوڑ مغربی سرحد پر ہم سے محاذ آرائی میں مصروف ہے۔ جب تک دونوں ممالک اپنا مفاد سامنے نہیں رکھتے کوئی بھی یہ جنگ جیت نہیں سکتا۔ اگر ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کی جائے گی تو ہم اس کا بھرپور جواب دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم جلد چین کا دورہ کریں گے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن ہمارے پاس اتنی بجلی ہے جس سے غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے بچا جائے۔ ادھر چمن کے بیشتر خاندان اپنے عزیزواقارب کے ہاں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ متاثرہ دیہات میں 5 ہزار سے زائد گھر آباد ہیں۔ ڈپٹی کمشنر قیصر ناصر نے کہا ہے کہ کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کیلئے گھر خالی کرائے گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری نے افغان فورسز کی فائرنگ کے متاثرین کیلئے معاوضے کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ حکومتی پالیسی کے مطابق معاوضے کی جلد ادائیگی کی جائیگی اور متاثرہ خاندانوں کی بحالی کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔ شہداء کے ورثاء کو 10لاکھ، شدید زخمی کو 5 لاکھ جبکہ معمولی زخمی کو 2 لاکھ روپے دئیے جائیں گے۔پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل محمد ذکاء اللہ نے سی ایم ایچ کوئٹہ کا دورہ کیا اور فائرنگ میں زخمیوں کی عیادت کی۔ نیول چیف نے سفاکانہ واقعہ کی مذمت کی۔ علاوہ ازیں صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل محمد طارق نے بتایا کہ اب تک 2000 خاندان کشیدگی والے علاقے سے نقل مکانی کرچکے ہیں جبکہ 4 ارب روپے سے زائد کا امدادی سامان متاثرہ افراد کے لئے فراہم کیا گیا ہے۔ ضرورت پڑنے پر مزید سامان بھی فراہم کیا جائیگا، نقصان کا اندازہ لگایا جارہا ہے۔ دریں اثناء افغان وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ سرحدی فورسز کو پاکستانی مبینہ حملوں کے جواب میں موثر کارروائی کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ افغان میڈیا کے مطابق وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش کا کہنا ہے کہ افغان سرحد پر تعینات اہلکاروں کو مبینہ پاکستانی حملوں کا موثر جواب دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ افغان حکام کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی فائرنگ سے اسکے چار سرحدی پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ بی بی سی کے مطابق صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ ادارے کے افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ 500 کے قریب متاثرہ خاندانوں کو ان کیمپوں میں جگہ دی جائے گی جہاں ان کے لئے پینے کے پانی‘ کھانے کے لئے راشن‘ صحت و صفائی او ردوسری ضروریات زندگی کے انتظامات کئے گئے ہیں۔ افغان فورسز کی بلااشتعال فائرنگ کیخلاف کوئٹہ میں دوسرے روز بھی احتجاج جاری رہا۔ بلوچستان متحدہ محاذ نے افغان قونصلیٹ کے سامنے جبکہ جمہوری وطن پارٹی نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔

ای پیپر-دی نیشن