کرپشن کے سومنات، آبی دہشت گردی اور کاغذی شیر
چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ مودی کی آبی دہشت گردی کا جواب صرف کالا باغ ڈیم ہے۔ کالا باغ ڈیم کو مکمل ہونے میں صرف چھ (6) سال لگیں گے۔ بھارت نے کئی ڈیم بنائے ہیں۔ وہاں ریاست باغ بہاراں ہو گئی ہے۔ اور ہم آپس میں لڑ رہے ہیں۔ پانی کے معاملے میں لڑنے کا وقت بھارت کے ساتھ بھی آ جائے گا۔
آخر کالا باغ ڈیم سے کس کو خطرہ ہے؟ یہ معلوم نہیں مگر کالا باغ ڈیم نہ بننے سے کئی سیاستدانوں کو فائدہ ہے۔ سنا ہے کہ بھارت نے بڑا مال لگایا ہوا ہے۔ اتنا ہی مال ’’پاکستانی‘‘ پاکستان سے لے لیں اور ڈیم بننے دیں۔
نواز شریف کے مطابق بہت گھپلے ہیں۔ تحقیقات کریں تو ترقیاتی کام رک جائیں گے۔ نواز شریف کی خدمت میں عرض ہے کہ جو ترقیاتی کام وہ کریں گے اس میں بھی کئی گھپلے آنے والے حکمران تلاش کر لیں گے۔ اس لیے وہ ترقیاتی کام ابھی رہنے دیں اور یہ تحقیقات کریں کہ گھپلے کہاں کہاں ہوتے ہیں اور کس کس نے کیے ہیں۔ تین بار تو خود ان کی حکومت رہی ہے۔ پنجاب حکومت تو کئی برسوں سے ن لیگ کے پاس ہے۔
سراج الحق کہتے ہیں کہ کرپشن کے سومنات پر 17 حملے کروں گا۔ وہ صرف یہ بتائیں کہ ان کا پہلا حملہ کب ہو گا اور اس وقت حکومت پر کون قابض ہو گا۔ نواز شریف کے پاس تو کئی سومنات ہیں۔ دوسرے حکمرانوں کے سومنات ساتھ ملا لیں تو سراج الحق ہر لمحہ ایک حملہ کرتے رہیں گے۔ کرپشن کے سومنات کی اصطلاح خوب ہے۔ اسے خوب تر بنانے میں بھی کئی احباب لگے ہوئے ہیں۔ سراج الحق سے گذارش ہے کہ پہلے نواز شریف کے سومنات سے ابتدا کریں۔ نواز شریف تو یہ تحقیقات نہ کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ کرپشن کے لیے تحقیقات ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہو گا مگر کوئی شروعات تو ہو۔ سراج الحق بسم اللہ کریں۔ وہ انشااللہ عمر بھر یہی کام کرتے رہیں گے۔ ویسے مجھے وہ پسند ہیں۔ ہر روز ان کا بیان چھپا ہوا ہوتا ہے اور اس میں کوئی نہ کوئی نئی بات کسی نہ کسی طرح ہوتی ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جسے ہماری حکومت نے بہت بڑی شے بنا دیا ہے بھارت والوں کی تحقیقات کے مطابق مودی بھارتی تاریخ کے کمزور ترین وزیراعظم ہیں اور ان کے نزدیک نواز شریف مضبوط ترین وزیراعظم ہیں جو آدمی تین بار وزیراعظم بن جاتا ہے تو یہ بھرپور اور پراسرار کامیابی حیران کن بلکہ پریشان کن ہے۔
مریم نواز کا پاکستانی سیاست میں بڑا چرچا ہے۔ وہ کہتی ہیں بھارتی شہری جندال ہمارے دوست ہیں۔ وہ مری چلے گئے تھے تو کیا ہوا۔ نواز شریف فیملی کے دوستوں کے لیے پاکستان میں ویزے کی پابندی نہیں ہے۔ مودی بھی تو افغانستان سے بغیر ویزے کے رائے ونڈ آئے تھے۔ جندال صاحب مری کیوں گئے ان کے ساتھ کون گیا تھا؟ یہ سوالات نجانے کس سے ہیں؟ مریم نواز سے تو بالکل نہیں ہیں؟ مریم نواز کے لئے برادرم اعتزاز احسن نے کہا ہے ’’مریم نواز کو بچانے کی کوششیں کیوں کی جا رہی ہیں؟‘‘ وہ پاکستان کی اگلی وزیراعظم ہیں مگر شہباز شریف فکر نہ کریں۔ وزیراعلیٰ پنجاب وہی ہوں گے ان کے بعد برادرم حمزہ شہباز ہوں گے۔ ’’اوپر تم نیچے ہم‘‘
شیخ رشید کے بیانات قابل اعتراض ہوتے ہیں مگر مزیدار بھی تو ہوتے ہیں۔ انہوں نے نوازشریف کے خلاف ایک دلچسپ بات کی۔ سیاستدانوں کے بیانات اکثر بے مزا ہوتے ہیں۔ شیخ صاحب لوگوں کو خفا کرنے کے ساتھ ساتھ خوش کر دیتے ہیں۔ ان کا تازہ بیان یہ ہے ’’اب تو یہ عالم ہے کہ لوگوں نے اپنے بچوں کا نام نواز رکھنا چھوڑ دیا ہے۔‘‘ ایک بچے کا نام محمد نواز رکھا گیا تو اس کے بڑے بھائی نے کہا کہ اگر یہی نام رکھنا ہے تو پورا نام رکھو۔ ’’گو نواز گو‘‘
میرے پسندیدہ سیاستدان آصف زرداری نے نوازشریف اور عمران خان پر ان کے انتخابی نشان کے حوالے سے تنقیدی اور تخلیقی جملہ کہا ہے۔ کاغذی شیر اور دیسی بلا۔ یہ وہ بلا ہے جس سے عورتیں کپڑے دھوتی ہیں اور ان کے بچے اس کے ساتھ کرکٹ کھیلتے ہیں۔ زرداری صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ شیر کے ساتھ بلہ بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ کبھی کبھی باگڑ بلہ بن جاتا ہے اور شیر ڈر کے بھاگ جاتا ہے۔
نجیبہ عارف ایک بہت اہل اور اہل دل خاتون ہیں۔ ان کا بہت وسیع مطالعہ ہے۔ ان کی تحریر کے لئے اگر کوئی دوسرا قافیہ ہے تو وہ صرف تقدیر ہے۔ تحریر اور تقدیر کے درمیان کوئی اسلوب ہے تو وہ نجیبہ بی بی کو بہت محبوب ہے۔ ان کی ایک تازہ تحریر پڑھ کر میں حیران رہ گیا۔ ’’راگنی کی کھوج میں‘‘ میری دعا ہے کہ وہ ساری عمر راگنی کی کھوج میں رہیں تو کسی دن ان کے قلم سے وہ تحریر نکلے گی جو تقدیر کی طرح ہو گی۔ اب بھی ان کی تحریر میں یہ تاثیر ایک راز کی طرح محسوس ہوتی ہے۔