پاکستان کا کیا قصور ہے ؟
چار برس کے بعد ہفتہ چھ مئی کو دوسرے پاکستانی رفقاء کے ساتھ جب راقم کابل پہنچا تو کابل میں بظاہر کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ کابل ائیرپورٹ سے کابل سٹار ہوٹل تک جہاں ہمارا قیام تھا ’’کابل کی سڑکوں پر ٹریفک کا بے پناہ رش تھا۔ احمد شاہ مسعود ‘ صدر اشرف غنی‘ برہان الدین کی تصویروں میں اب گلبدین حکمت یار کی تصویر کا اضافہ ہو گیا ہے۔ گلبدین حکمت یار دو روز قبل کابل پہنچے تھے۔ کابل میں پشتو بولنے والے افغانوں نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔ صدر اشرف غنی ‘ سابق صدر حامد کرزئی‘ عبداﷲ عبداﷲ بھی ان کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ اس پرجوش استقبال کے باوجود افغانستان کی موجودہ نیشنل یونٹی گورنمنٹ گلبدین حکمت یار کی افغانستان کی سیاست میں واپسی سے زیادہ خوش نہیں۔ یہاں کے انگریزی اخبار ’’افغانستان ٹائمز‘‘ کے آخری صفحہ پر ایک خبر یہ تھی کہ ’’کابل پہنچنے پر گلبدین حکمت یار کے خلاف ایک بڑا جلوس بھی نکالا گیا ہے‘‘
میں نے افغانستان کو کئی مرحلوں سے گزرتے دیکھا ہے۔ اسی کی دہائی میں جب افغانستان میں سوویت فوجوں کیخلاف لڑائی ہو رہی تھی اور پاکستان اس لڑائی میں مجاہدین کی مدد کرنے والا صف اول کا ملک تھا تو افغانستان میں پاکستان کے بارے میں احساسات مختلف تھے۔ اس دور میں پاکستان نے چالیس لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دی تھی‘ ان میں سے لاکھوں افغان مہاجرین اب بھی پاکستان میں موجود ہیں۔ اس دور میں روس نواز شمالی اتحاد اور کمیونسٹ عناصر کے علاوہ زیادہ تر افغان پاکستان کے ممنون تھے اور پاکستان کے خلاف اس قدر شدید جذبات نہیں پائے جاتے تھے جو اب پائے جاتے ہیں۔
مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب 1992ء میں سویت فوج کو افغانستان سے نکالنے کے بعد افغانستان میں مجاہدین کی پہلی حکومت قائم ہوئی تھی تو اس حکومت کے سربراہ پروفیسر صبغت اﷲ مجددی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرنے والے صحافیوں میں یہ خاکسار بھی شریک تھا۔ پروفیسر صبغت اﷲ مجددی افغان مجاہدین کی سات پارٹیوں کے درمیان ایک سمجھوتے کے تحت افغانستان کے صدر بنے تھے۔ اس حلف برداری کی تقریب میں وزیراعظم نواز شریف اور اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز بھی موجود تھے۔ کابل کے صدارتی محل میں یہ تقریب حلف برداری منعقد ہوئی تھی۔ پاک فضائیہ کے دو سی۔130 قسم کے طیاروں میں پاکستانی وفد اور صحافی مجاہدین کی پہلی حکومت کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لئے کابل پہنچے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس تقریب میں چائے ‘ پیٹز اور پیسٹریاں بھی پاکستان سے لائی گئی تھیں۔ پچیس برس پہلے منعقد ہونے والی اس تقریب کے وقت افغانستان کا ماحول بہت مختلف تھا۔ شمالی اتحاد میں شامل وار لارڈز اس حکومت کے مخالف تھے۔ خود گل بدین حکمت یار بھی پروفیسر مجددی کے صدر بننے پر ناراض تھے۔ جب پاکستان کے وزیراعظم ‘ آرمی چیف جنرل آصف نواز اور پاکستانی وفد کے دوسرے ارکان اسلام آباد واپسی کے لئے قابل ائیر پورٹ پر پہنچے تو ائیر پورٹ کے اطراف میں گولہ باری شروع ہو گئی۔ یہ گولہ باری حکمت یار کے حامی کر رہے تھے جو اس بات پر احتجاج کر رہے تھے کہ انہیں افغان مجاہدین کی حکومت کا سربراہ کیوں نہیں بنایا گیا۔
اس گولہ باری کی وجہ سے ہماری پاکستان روانگی میں تاخیر بھی ہوئی تھی لیکن اس وقت ہمارے ساتھ کابل جانے والے آئی ایس آئی کے ایک سینئر افسر نے جب حکمت یار کو وارننگ دی کہ گولہ باری کو بند کیا جائے ورنہ انہیں اس کے نتائج بھگتنے پڑیں گے تو گولہ باری بند ہو گئی اور ہم اسلام آباد روانہ ہوئے۔ مجاہدین کی حکومت اختلافات کا شکار ہو گئی۔ افغانستان بدامنی اور خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ گیا۔ تھوڑے عرصے کے بعد طالبان نے افغانستان پر حملہ کر دیا اور طالبان کی حکومت قائم ہوگئی۔
1992ء سے لے کر نائن الیون تک افغانستان شدید خانہ جنگی کی لپیٹ میں رہا۔ 1995ء میں پاکستان میں بینظیر بھٹو کی حکومت تھی۔ امریکہ اور دوسرے مغربی ملکوں کی کوشش تھی کہ افغانستان میں استحکام آئے۔ امریکہ کی حمایت سے بینظیر حکومت نے آپس میں برسرپیکار افغان دھڑوں کے درمیان مصالحت کے لئے کوشش کی تھی۔ اس وقت کے وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی کے ساتھ ہم چند صحافی جن میں رحیم اﷲ یوسف زئی اور اس وقت کے نیشن کے سینئر رپورٹر فہد حسین اور یہ خاکسار سردار آصف احمد علی کے ساتھ افغانستان میں آنے والے وفد میں شامل تھے۔ بینظیر کے وزیر خارجہ نے کابل میں سب سے پہلے احمد شاہ مسعود سے ملاقات کی جو اس وقت کابل پر قبضہ جما چکے تھے۔ جس کے بعد قندھار میں ملا عمر‘ ہیرات میں اسماعیل خان ‘ مزار شریف میں عبدالرشید دوستم اور ننگر ہار میں حاجی محمد قدیر سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں کیا ہوا یہ لمبی کہانی ہے۔ اس وقت تک پاکستان کے بارے میں افغانستان میں اس قدر مخالف جذبات نہیں تھے جتنے آج ہیں۔
ہفتہ کے روز کابل پہنچے۔ کابل سٹار ہوٹل میں سامان رکھنے کے بعد ہماری پہلی ملاقات افغان صحافیوں کے ایک وفد سے ہوئی جس میں شمشاد ۔۔۔۔ اور بعض دوسرے گروپوں کے نمائندے شامل تھے۔ ان صحافیوں سے اچھی گفتگو ہوئی لیکن جب راقم نے ان سے سوال کیا کہ افغان میڈیا کو کئی غیر ملکی اداروں اور محکموں سے فنڈز ملتے ہیں تو وہ آزادی سے کیسے صحافت کر سکتے ہیں تو ان صحافیوں نے اس سوال کا یہ جواب دیا کہ افغان میڈیا کو جو فنڈز ملتے ہیں وہ انہیں کسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے نہیں دئیے جاتے وہ صرف ایڈ یا مدد کے طور پر دئیے جاتے ہیں۔ افغانستان میں میڈیا کے بارے میں اعداد و شمار سن کر بھی بڑی حیرت ہوئی۔ افغانستان میں ایک سو سے زیادہ ٹی وی چینلوں کو لائسنس دئیے گئے ہیں لیکن سات یا آٹھ چینل پرانے ہیں جن میں اے ٹی آر‘ شمشاد‘ طلوع سرفہرست ہیں۔ کئی چینل افغان وارلارڈز کی ملکیت ہیں جو وار لارڈز کی پالیسیاں فالو کرتے ہیں۔ افغان ٹی وی اور پرنٹ میڈیا کی توجہ پاکستان پر ہے یعنی پاکستان سنٹرک Pakistan Centerk میڈیا ہے۔ (جاری)