چمن :کشیدگی برقرار متاثرہ علاقے کا سروے کرزئی پاکستان آنے کوتیار جنگ نہیں چاہتے :عبداﷲعبداﷲ
چمن+ کابل + کوئٹہ + اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں+ بی بی سی+ نوائے وقت رپورٹ+ بیورو رپورٹ+ سپیشل رپورٹ) چمن بارڈر پر پاک افغان کشیدگی برقرار اور باب دوستی چوتھے روز بھی بند رہا، ٹرانزٹ ٹریڈ، نیٹو سپلائی اور پیدل آمدورفت بھی مکمل بند ہے، باب دوستی پر پاک افغان فوجی حکام کی فلیگ میٹنگ میں سرحد کی جغرافیائی حدود کا تعین کرنے کے سلسلہ میں طے پایا تھا کہ نقشوں اور گوگل ارتھ کی مدد سے سرحد کا تعین کیا جائیگا۔ پاکستانی حکام نے دیہات کلی لقمان ، کلی جہانگیر اور گلدار باغیچہ کو پاکستانی علاقہ قرار دیا اور افغان حکام کو ان دیہات میں 1998ء کی مردم شماری ، ترقیاتی کاموں اور مقامی لوگوں کے شناختی کارڈز پر مشتمل دستاویزات پیش کیں۔ ٹیمیں اپنی رپورٹ اسلام آباد اور کابل ارسال کریں گی۔ دوسری طرف افغان فورسز کی جارحیت کے بعد پرانا چمن میں متاثرین کے لیے دو ہزار خیموں پر مشتمل بستی قائم کر دی گئی ہے۔ ایم ڈی اے کی جانب سے متاثرین میں امدادی اشیاء بھی تقسیم کی گئیں۔ دیہات سے پانچ ہزار خاندانوں نے نقل مکانی کی۔ پاک افغان سرحد پر پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ جیولوجیکل ٹیم نے کلی جہانگیر اور کلی لقمان میں سروے مکمل کرلیا۔ اتوار کے روز پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ ٹیموں نے کلی بادشاہ میں سروے کیا تھا۔ نجی ٹی وی کے مطابق جغرافیائی حدود کا تعین رپورٹس کی منظوری کے بعد کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے دورہ اسلام آباد کی دعوت قبول کر لی ہے اور وہ ماہ رمضان کے بعد یہ دورہ کریں گے۔ حامد کرزئی نے پاکستان سے آئے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے دعوت منظور کرتے ہوئے وزیر اعظم کو ایک جوابی خط بھی لکھا ہے جسے انہوں نے 'نجی' قرار دیتے ہوئے صحافیوں کو دینے سے انکار کیا۔ حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ انھیں گزشتہ چند برسوں میں پاکستان دورے کی چار دعوتیں موصول ہو چکی تھیں لیکن اب انھوں نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس وقت جانے کا فیصلہ کیوں کیا۔ حامد کرزئی کو ان کی صدارت کے آخری ایام میں پاکستان میں شدید نکتہ چینی کا سامنا رہا تھا اور ان پر انڈیا نواز ہونے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ ان کے دورے کی دوبارہ دعوت اور اس کی منظوری سے لگتا ہے کہ دونوں حکومتیں شاید اب ان کے ذریعے تعلقات کی بہتری کی ایک کوشش کرنا چاہتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں کہ ماضی میں تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بیس دوروں سے کوئی فائدہ نہیں ہوا تو اس مرتبہ ایک بار پھر وہ کیوں جانا چاہ رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ 'امید کی وجہ سے۔ اگر مجھے اس امید کے نتیجے میں سو سال بھی پاکستان جانا پڑے تو میں جاتا رہوں گا۔ اسے تمام زندگی نہیں چھوڑوں گا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کو ایک مکمل ساتھی کے طور پر ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ 'یہ میری خوش قسمتی ہوگی اگر میں دونوں ممالک کے درمیان 'پیس میکر' کا کردار ادا کرسکوں۔ میرے لیے اس سے بڑی بات کوئی اور نہیں ہوگی۔ لیکن تالی بجانے کے لیے یاد رہے کہ دو ہاتھ چاہیے ہوتے ہیں۔علاوہ ازیں پاک افغان سرحدی شہر چمن کے علاقے کلی لقمان اور کلی جہانگیر آباد میں افغان فورسز کی گولہ باری میں زخمی ہونیوالی ایک اور بچی زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسی اسی طرح افغان فورسز کی گولہ باری میں شہید ہونے والے سکیورٹی اور سویلین افراد کی تعداد 10 ہوگئی۔
کابل (جاوید صدیق) افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداﷲ عبداﷲ نے کہا ہے کہ پاکستان کو افغانستان کے بارے میں بعض معاملات پر تشویش ہے جبکہ افغانستان کو پاکستان کے بارے میں بعض معاملات پر شکوے ہیں۔دونوں ملکوں میں عداوت تو نہیں لیکن غلط فہمیاں ہیں جنہیں بات چیت کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے۔پیر کے روز اپنے دفتر میں پاکستان کے صحافیوں کے ایک وفد سے بات چیت کرتے ہوئے عبداﷲ عبداﷲ نے کہا کہ چمن بارڈر پاکستان کی مردم شماری کی ٹیم پر حملہ کسی سازش کا نتیجہ نہیں تھا۔ وہاں جو کچھ ہوا اچھانہیں ہوا۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے میری ملاقات میں یہ طے ہوا تھا کہ جو عناصر ایک دوسرے کی سرزمین کو استعمال کر رہے ہیں ان کے خلاف ایکشن لیا جائے گا لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بھارت کے ساتھ تعلقات ہیں وہ کئی تعمیری منصوبوں پر ہماری مدد کر رہا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہماری پالیسیوں کو کنٹرول کر رہا ہے اور وہ افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ ڈاکٹر عبداﷲ عبداﷲ نے کہا کہ پاکستان میں یہ تاثر ہے کہ افغان انٹیلی جنس ایجنسی بھارت کی مدد سے چل رہی ہے۔یہ سراسر غلط بات ہے ایس ڈی ایس امریکہ نے تشکیل دی ہے اور وہ اس کی تربیت کررہا ہے۔اگر ایس ڈی ایس پاکستان کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہو تو کم از کم امریکی ہمیں ضرور اس بارے میں آگاہ کریں گے۔بھارت سے افغانستان کے تعلقات پاکستان کے خلاف نہیں ہیں۔ افغانستان کے چیف ایگزیکٹو نے کہا کہ پاکستان نے سوویت یونین کے قبضے سے افغانستان کی آزادی کے لئے انتہائی اہم کردار ادا کیا جسے ہم فراموش نہیں کرسکتے۔ اس سوال پر کہ افغانستان سے تحریک طالبان کے عناصر پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیاں کر رہے ہیں پاکستان کی نشاندہی کے باوجود افغانستان کوئی اقدام نہیں کررہا تو افغانستان کے چیف ایگزیکٹو نے کہا کہ ہم نے کئی گروپوں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔ عبداﷲ عبداﷲ نے کہا کہ افغانستان کو سیکورٹی کے جتنے بڑے چیلنج کا سامنا ہے پاکستان کو اتنے بڑے چیلنج کا سامنا نہیں ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج اس علاقے کی سپریم افواج ہیں ہے ان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کریں اور ملک کی سیکورٹی کی دیکھ بھال بھی کریں لیکن افغانستان کے پاس ایسی صلاحیت نہیں ہے۔عبداﷲ عبداﷲ سے جب پاکستانی میڈیا نے سوال کیا کہ وہ کب پاکستان کا دورہ کریں گے تو انہوں نے جواب دیا کہ میں جلد دورہ کروں گا لیکن تاریخ نہیں دوں گا۔این این آئی کے مطابق ڈاکٹر عبداﷲ عبداﷲ کہاکہ افغان مفاہمتی عمل کے لئے پاکستان سے زیادہ کوئی ملک کردار ادا نہیں کر سکتا تاہم باہمی تعلقات کی موجودہ صورتحال سے مطمئن نہیں جب کہ یہ تاثر غلط ہے کہ ہم افغانستان میں ہونے والی ہر کارروائی کا الزام پاکستان پر لگاتے ہیں، پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی صلاحیت ہے اور نہ ارادہ لہذا پاکستان کے مفادات کے خلاف کبھی کوئی ہدایت جاری نہیں کیں اور جو پاکستان کو نقصان پہنچائے گا وہ ہمیں نقصان پہنچائے گا جب کہ آپریشن ضرب عضب ایک اچھا اور مثبت اقدام ہے۔افغان چیف ایگزیکٹو کے مطابق افغانستان میں سیکیورٹی بڑا چیلنج ہے اور تحریک طالبان پاکستان کو دہشت گرد تنظیم سمجھتے ہیں، ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی ایک حقیقت ہے تاہم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے بڑے مسائل کا سامنا ہے، طالبان ہمارے دشمن ہیں، طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے رعایت دینے کے بجائے مجبور کرنا ہوگا جبکہ دہشت گردوں کے ساتھ کوئی ہمدردی اور تعاون نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی پارلیمانی وفد کا دورہ مثبت رہا تاہم پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تعاون کی فضا موجود نہیں جبکہ مناسب وقت پر پاکستان کا دورہ کروں گا۔ بی بی سی کے مطابق انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے۔
عبداﷲ عبداﷲ