خود مختارممالک میں ریاستی دہشتگردی کا پوری دنیا کو پتہ چلنے پر بھارت بوکھلا ہٹ کا شکارہے دفتر خارجہ
اسلام آباد (صباح نیوز) دفتر خارجہ کے ترجمان محمد نفیس ذکریا نے کہا ہے کہ بھارت اس لئے بوکھلاہٹ کا شکار ہے کہ پوری دنیا کو پتہ چل گیا ہے کہ بھارت خودمختار ممالک کے اندر ریاست کی سطح پر دہشت گردی میں ملوث ہے۔ کلبھوشن یادیو کا بیان اور احسان اللہ احسان کے اعترافات سمیت بے شمار ایسی چیزیں ہمارے سامنے موجود ہیں، پاکستان افغانستان میں امن کے قیام کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔ ہم کوشش کرینگے جنگجو گروپ مذاکرات کی میز پر آئیں اور افغان حکومت سے بھی کہتے ہیں وہ مذاکرات کے لئے ماحول پیدا کرے تاکہ لوگ بات کرنے پر راضی ہوں۔ گذشتہ 40 سال کے دوران افغانستان میں خلا پیدا ہوا ہے اور وہ خلا رہے گا۔ اتنی جلدی اس کی ریکوری نہیں ہو گی۔ افغان حکام کو بتا دیا کہ جب بھی آپ کی طرف سے سرحدی خلاف ورزی ہو گی تو ہمارا کیا ردعمل ہو گا۔ہماری پالیسی پرامن ہمسائیگی پر مبنی ہے۔ ان خیالات کا اظہار محمد نفیس ذکریا نے سرکاری ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔محمدنفیس زکریا نے مزید کہا کہ چمن واقعہ کو کئی پہلوؤں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں 40سال سے مستقبل خانہ جنگی کا عالم ہے۔ وہاں کئی نان سٹیٹ ایکٹرز کو بھی جگہ ملی۔ان میں کچھ عناصر ایسے ہیں جو پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ ہم نے کئی بار اس چیز کی نشاندہی بھی کی کہ بھارت کا کیا کردار ہے۔ احسان اللہ احسان کے انکشاف ہمارے سامنے ہیں اور اس سے قبل کلبھوشن یادیو کے اعترافات بھی موجود ہیں۔ ان ساری چیزوں کے تناظر میں دیکھیں تو آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ کون سی قوت ہے جو پاکستان کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ ان کا کہنا تھا چمن میں مردم شماری ٹیم عام لوگوں پر مشتمل تھی۔ یہ کوئی آرمڈ فورس نہیں تھیں۔ ان پر حملے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ ہماری پالیسی ہے کہ ہم افغانستان میں امن دیکھنا چاہتے ہیں اور افغانستان سے تعلقات اچھے رکھنا چاہتے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات حکومت کی سطح پر ہی نہیں بلکہ لوگوں کے ساتھ ہیں اور یہ صدیوں پرانے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملکی سلامتی کے تحفظ کے لئے ہم تمام اقدامات اٹھاتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے ڈی جی ایم اوز کی بات ہوئی۔ پھر فلیگ میٹنگ ہوئی اس میں ایک چیز واضح سامنے آئی ہے۔ سب کو اس پر زیادہ سوچنا ہو گا اور افغانستان خود بھی مانتا ہے کہ بارڈر مینجمنٹ بہت ضروری ہے۔ محمد نفیس ذکریا کا کہنا تھا کہ بارڈر مینجمنٹ کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ افغانستان اپنی جانب کرے اور پاکستان اپنی جانب کرے ہمارا ان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی طرف چینج کر رہے ہیں مگر وہ نہیں کر رہے۔ ہماری یہ شکایت ہے کہ افغانستان سے لوگ آ کر پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں افغانستان میں بیٹھی دہشت گرد تنظیموں نے باقاعدہ اس کا اعلان کیا۔ جماعت الاحرار نے لاہور اور سیہون شریف حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک پاکستان اور افغانستان بات چیت نہیں کرینگے، دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیاں دور نہیں ہوں گی۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں۔ افغانستان نے سرحدی خلاف ورزی کی اس پر ہم نے جو اقدامات اٹھانے تھے وہ اٹھائے۔ اس سلسلہ میں ان سے رابطہ میں ہیں۔ ان کو باور کروا دیا گیا ہے کہ جب جب آپ کی طرف سے سرحدی خلاف ورزی ہو گی اس پر ہمارا کیا جواب ہو گا اور وہ اسے سمجھ گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان جنگ زدہ ملک ہے۔ پوری دنیا وہاں پر لگی ہوئی ہے۔ دنیا کی پوری طاقتوں نے 16، 17 سال سے کوشش کر کے دیکھ لیا کچھ نہیں ہو سکا۔ حالات ابھی بھی ویسے ہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری خارجہ پالیسی واضح ہے۔ وزیراعظم کا ویژن پرامن ہمسائیگی ہے چاہے بھارت ہو یا افغانستان‘ ایران ہو یا چین ہر کسی کے ساتھ ہم یہی پالیسی لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ نفیس ذکریا کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان میں امن اور قومی مفاہمت دیکھنا جاہتے ہیں اگر وہاں استحکام ہو گا تو ہمارے سمیت پورے خطہ کو فائدہ ہو گا۔ ہم افغان قیادت میں مفاہمتی عمل کی حمایت کرتے ہیں۔ افغان عوام کی بڑی تعداد پاکستان کے ساتھ دوستی کی خواہاں ہے۔