وزیراعظم کا دل کون جیتے گا نجم سیٹھی یا کوئی اور؟؟؟
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان اپنا استعفیٰ پیٹرن انچیف وزیراعظم میاں نواز شریف کو بھجوا چکے ہیں۔ انکے عہدے کی مدت سترہ اگست کو ختم ہو رہی ہے۔ شہریار خان چاہتے ہیں کہ موجودہ گورننگ بورڈ ہی نئے چیئرمین کا انتخاب کرے۔ وہ وقت سے پہلے پیٹرن انچیف کو استعفیٰ بھجوانے کی وجہ بھی یہی قرار دیتے ہیں۔ اب یوں محسوس ہوتا کہ شہریارخان چاہتے ہیں کہ اگست تک استعفی منظور نہ ہی ہو تو بہتر ہے کیونکہ بگ تھری فارمولہ اختتام کیطرف بڑھ رہا ہے۔ شہریارخان کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے بگ تھری کیخلاف واضح موقف اپنایا اسکے لیے لابنگ بھی کی اور کئی ممالک کو قائل کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔ اس مہم میں انکے مثبت کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی سطح پر ہونیوالی پاور گیم نے بھی بگ تھری کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب ایک لابی جائلز کلارک کو آئی سی سی کے نئے چیئرمین کے طور پر دیکھنا چاہتی ہے جبکہ ششانک منوہر کو استعفی واپس لینے کے لیے قائل کرنیکی کی کوششیں جاری ہیں سو اس پاور گیم میں کمزور بورڈز کو فائدہ پہنچا ہے۔یہی وجہ تھی کہ آسٹریلیا اور انگلینڈ جو کہ اس بگ تھری کے بڑے کردار تھے انہوں نے بھی اسکی مخالفت کی۔ ان دو ممالک کی مخالفت نے ہی بگ تھری کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ تاہم پی سی بی کے چیئرمین نے بھی اس دوران قومی و بین الاقوامی سطح پر اپنے کارڈز عمدگی کیساتھ کھیلے ہیں۔ آئی سی سی کے اجلاس سے واپسی پر قذافی سٹیڈیم کے بجائے اپنی رہائش گاہ پر میڈیا بریفنگ کی کوئی خاص وجہ ضرور تھی ورنہ اسمیں تاخیر کی جا سکتی تھی۔ اس ساری صورتحال میں شہریارخان کے قریبی دوست نہیں چاہتے کہ وہ اس وقت کرکٹ بورڈ چھوڑ کر جائیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی حکمت عملی میں کس حد تک کامیاب رہتے ہیں۔ جبکہ وہ خود متعدد بار کرکٹ بورڈ سے رشتہ ختم کرنیکا متعدد بار اظہار کر چکے ہیں۔
اب جوں جوں کرکٹ بورڈ کے سربراہ کی رخصتی کا وقت قریب آ رہا ہے ویسے ہی اس پرکشش عہدے کے حصول کے لیے لابنگ میں بھی تیزی آ رہی ہے۔ سینٹر پرویز رشید کا نام بھی سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ پرویز رشید بھی اس پاور گیم میں اہم پلئیر ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان کا شمار وزیر اعظم کے قریبی افراد میں ہوتا ہے اور میاں نواز شریف انہیں کسی اہم عہدے پر تعینات کرنیکی خواہش بھی رکھتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زمینی و سیاسی حالات اسکی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔ کہیں سیکیورٹی کلیئرنس والا معاملہ آڑے نہ آ جائے۔ زرعی ترقیاتی بینک کے صدر طلعت محمود کا نام بھی ان افراد میں شامل ہے جو کرکٹ بورڈ میں خدمات کے خواہشمند ہیں۔ گذشتہ ہفتوں میں انکا نام بھی زیر غور رہا ہے۔ طلعت محمود بھی پیٹرن انچیف کے قریبی افراد میں شمار کیے جاتے ہیں۔ دیرینہ دوستی بھی ہے۔ یہ اس فہرست میں نئے نام ہیں۔ پرانے پاور پلیئرز میں پاکستان سپر لیگ اور کرکٹ بورڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی سب سے اہم، منظم اور تجربہ کار کھلاڑی کی حیثیت سے میدان میں ہیں۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ نجم سیٹھی نے شہریارخان کی رخصتی کے بعد نئی اننگز کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ ممکنہ عدالتی رکاوٹ اور کیسز کے حوالے سے بھی ہوم ورک مکمل کر لیا گیا ہے۔مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے قانونی ماہرین سے مشاورت بھی مکمل کر لی گئی ہے۔ پی سی بی کا گورننگ بورڈ نجم سیٹھی کی ملکی کرکٹ میں گراں قدر خدمات کے اعزاز میں انہیں ملک کے اعلی ترین سول اعزاز کے لیے نامزد کرنیکی منظوری بھی دے چکا ہے۔ یہ تمام کام کسی مقصد کے تحت ہی کیے گئے ہیں۔ سب سے بڑھ کر پاکستان سپر لیگ کی کامیابی پھر قذافی سٹیڈیم میں سپر لیگ سیزن ٹو فائنل کے پرامن اور کامیاب انعقاد اور فائنل کے لاہور میں انعقاد کی بنیاد پر ستمبر میں ورلڈ الیون کے دورہ پاکستان کے اعلان کی بعد نجم سیٹھی کے کریڈٹ میں خاصی چیزیں شامل ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ وہ آج بھی وزیراعظم پاکستان اور کرکٹ بورڈ کے پیٹرن انچیف میاں نواز شریف کی گڈ بکس میں ہیں نا صرف گڈ بکس بلکہ بااعتماد اور اس سے بھی بڑھ کر پسندیدہ بھی سمجھے جاتے ہیں یوں کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بننے کے لیے وہ سب سے اہم تقاضے اور معیار پر پورا اترتے ہیں۔کرکٹ بورڈ میں چار سال کا عرصہ گذارنے کے بعد نجم سیٹھی سمجھتے ہیں کہ وہ کرکٹ میں پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔ اس دوران انکا سب سے بڑا کارنامہ پاکستان سپر لیگ شروع کروانا، اس ٹورنامنٹ کے ذریعے سے ملکی کرکٹ میں سپانسر شپ کی بنیادوں پر چلانے کی منصوبہ بندی ، سپر لیگ کو مرحلہ وار پاکستان میں لانے کی منصوبہ بندی بھی قابل ذکر ہے۔ انکی کرکٹ بورڈ میں موجودگی سے ماضی کے کچھ عظیم کرکٹرز حکومت وقت سے ناراض بھی ہیں ان ناراض کھلاڑیوں میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اول نمبر پر ہیں لیکن اس کھیل مخالفت کے باوجود بھی نجم سیٹھی کو ایوان وزیراعظم کے عارضی مکین کی مستقل حمایت حاصل ہے۔کیا موجودہ حالات میں بھی وہ میاں نواز شریف کا دل جیتنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔اسکا فیصلہ وقت کرے گا۔ دوسری طرف اب وزیراعظم یہ اعلان بھی کر چکے ہیں انکی طرف سے ایک مرتبہ کا دوست ہمیشہ کا دوست ہوتا ہے۔ اس معاملے میں وزیراعظم اپنی دوستی کس کے ساتھ نبھاتے ہیں۔ نجم سیٹھی، پرویز رشید، طلعت محمود یا کوئی پرانا دوست نئے عہدے پر، الٹی گنتی شروع ہے دیکھتے ہیں کون خوش قسمت اس عہدے کے لیے وزیراعظم کا اعتماد حاصل کرتا ہے۔ ان کے علاوہ بھی کئی چھپے رستم بورڈ میں زلزلہ برپا کرنے کی اہلیت صلاحیت قابلیت اور وزیراعظم سے قربت رکھتے ہیں ان میں سے بھی کوئی ڈارک ہارس ہو سکتا ہے۔