سیاسی قوتوں کی مڈبھیڑ‘ انجام معلوم نہیں
پاکستان داخلی طورپر اس وقت تین مقتدر سیاسی قوتوں کے حصار میں ہے۔ اجمال اس کا یہ کہ پہلی قوت نوازشریف اور انکی جماعت مسلم لیگ ن ہے‘ جوعنان اقتدار چلانے سے زیادہ پانامہ لیکس کے عفریت سے اپنی باعزت خلاصی کی خاطر مصروف جدوجہد ہے۔ دوسری قوت عمران خان اور انکی پارٹی تحریک انصاف کی ہے جو جمہوری روایات کے مطابق پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مضبوط اور توانا اپوزیشن چلانے سے زیادہ نوازشریف اور انکی حکومت کےخلاف ایجی ٹیشن کی پالیسی پر عمل پیرا رہی ہے اور اب تک اسکی حکمت عملی کی ترجیحات میں نوازشریف حکومت کی شدید مخالفت کے سوا کچھ نہیں۔ تیسری قوت آصف زرداری کی ہے‘ جو اپنی ذات کو پارٹی سمیت ملک و قوم اور ہر چیز سے مقدم سمجھتے ہیں۔ دیگر پارٹیوں کے ساتھ انکے تعلقات بھی اسی نہج پر استوار ہیں‘ جیسے ماڈل گرل ایان علی اور ڈاکٹر عاصم کے خلاف کارروائی نہ ہوتی توان کے تعلقات نوازشریف اور انکی جماعت مسلم لیگ ن سے بدستور خوشگوار رہتے‘ لیکن چونکہ اس ضمن میں حکومت وقت کے ساتھ ان کا کوئی واضح ”سمجھوتہ“ نہیں ہو سکا لہٰذا ان کا نعرہ ہے ”گلی گلی میں شور ہے نواز شریف چور ہے“۔ بادی النظر میں نوازشریف اور آصف زرداری کے مابین ایک تفاوت یہ بھی ہے کہ نوازشریف اپنے خلاف استعمال ہونیوالے تمام ترحقائق اور ثبوت سڑک پر پھینک دیتے ہیں کہ جو چاہے اٹھا کر استعمال کرلے‘ جبکہ آصف زرداری ایک شاطر انسان ہیں‘ ماڈل گرل ایان علی کچھ منہ سے بولتی ہیں اور نہ ہی ڈاکٹر عاصم ایک لفظ بھی زبان سے نکالتے ہیں‘ حد یہ کہ ایان علی کے منی لانڈرنگ کیس میں کلیدی گواہ ایکسائز کے ایک افسر کو راولپنڈی شہر میں دن دھاڑے قتل کردیا جاتا ہے اور پورے پاکستان میں کسی کی زبان تک نہیں ہلتی۔موجودہ صورتحالات میں معاملہ زیر عتاب نوازشریف یا ان کی جماعت مسلم لیگ ن کا نہیں بلکہ عمران خان اور انکی پارٹی تحریک انصاف کی کریڈیبلٹی کا ہے‘ جو نوازشریف کی زبردست مخالفت کر کے بالفرض 2018ءکے الیکشن میں جیت بھی جائے تو اپنا ڈھیر سارا وقت ضائع ہونے کے باعث اقتدار میں آکر عوام کو کیا دےگی؟ اور پھر یہ بھی کہ نوازشریف کے اقتدر کو ہمہ وقت تختہ مشق بنانے پر کیا تحریک انصاف کے اقتدار کے دنوں کوانکے سیاسی مخالفین پھولوں کی سیج بنا دیں گے؟ ایسا ہرگز نہیں ہو گا‘ پاکستان کی اب تک کی سیاست میں تو یہ منظر نامہ ہی رہا کہ جو کسی نے بویا وہی کاٹا اور اگر اپنے سیاسی مخالفین کو ڈھنگ سے حکومت نہیں کرنے دی تو پھر اپنے لئے آسودگی اور راحت کی تمناکرنےوالے‘ وہی دن دیکھیں گے جو انکے سیاسی مخالفین دیکھا کئے۔ یہ قانون فطرت ہے موقع بھی ہے اور دستور بھی کہ گائے گھاس کھا جاتی ہے‘ گائے کو گوشت خور کھا جاتے ہیں اور گوشت خوروں کو زمین کھا جاتی ہے۔ سیاست میں پہلا سبق برداشت کا ہے اور برداشت سے بھی زیادہ بردباری کا‘ اسی لئے اسلامی معاشرے میں سیاست اور دین کو منسلک کر کے دیکھا اور پرکھا جاتا ہے‘ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘ اب اگر نوازشریف اور ان کی پارٹی کرپٹ ہے تو اسے قانون کے حوالے کر کے نتائج کا انتظار کرنا چاہئے‘ عدالت عظمیٰ نے گومگو فیصلے کے بعد حتمی فیصلے کےلئے جے آئی ٹی بنائی تو پھر نوازشریف کا استعفا بیچ میں کہاں سے آگیا؟ اگر عمران خان اور ان کی پارٹی کا مطالبہ استعفا ہی تھا تو عدالت میں جانے کا کیا مقصد تھا؟ جب معاملہ قانون کے سپرد ہو گیا تو منطقی سی بات ہے نوازشریف سے استعفا عدالت کو مانگنا چاہئے تھا نہ کہ عمران خان اور اس کی پارٹی کو۔ دراصل ہمارے نزدیک مذہب‘ دین‘ سیاست اور قانون و دستور سب کچھ ہماری اپنی خواہشات پرچلتے نظر آنے چاہئیں‘ ہم نہ تو مذہب و سیاست کو فطری بہا¶ پر چلنے دیتے ہیں‘ نہ قانون و دستور کو‘ ہم ذاتی طورپر بھی اپنی خواہشات کے مارے ہوئے ہیں۔ ہمارا مذہبی پیشوا کہتا ہے میرے منہ سے جو نکلے وہی دین ہے‘ قانونی ماہرین کہتے ہیں جو توجیح ہم کریں وہی قانون ہے‘ سیاست دان کہتا ہے پورا عملی نظام میرے تابع ہونا چاہئے‘ میری ذاتی خواہشات ہی مقدم ہیں اور ہمارا دانشور اپنے ذہنی تنازعوں کو نظریات بناکر پیش کرتا ہے۔ مذہب‘ سیاست اور علم کی اصل روح کےمطابق معاملات کو دیکھنے والی آنکھ ہی ہمارے پاس نہیں۔ اس طرح ہر تنازعے اور قضیے کے نتائج محض مڈبھیڑ اور دھینگا مشتی کی صورت نکلتے ہیں۔ اسی لئے سب نے دیکھا پانامہ سماعت کے ہر موقع پر عدالتی ریمارکس اور ججوں کی باتیں پس منظر میں رہیں‘ سیاسی جماعتوں کے چوہدریوں کی بڑھکیں ہی منظر عام پر آتی رہیں‘ ہمارا میڈیا بھی اسی طرز اظہار کو ہائی لائٹ کرتا رہا اور پھر عدالتی فیصلہ آیا تواسکے مطابق عمل پیرا ہونے کے برعکس ہر دھڑے نے اپنے خود ساختہ اور عدالت سے ماورا فیصلے ہی بڑھکوں کی صورت اجاگر کئے۔ ایک جج نے کہا فیصلہ تاریخی ہوگا تو سب دھڑوں نے کہا چونکہ یہ ہمارے حق میں ہو گا اس لئے تاریخی کہلائے گا۔ پھر جب فیصلے کا اعلان ہوا تو ہر کسی نے اسے اپنی فتح کہا بہت کم لوگوں نے اسے پڑھ کر درس عبرت حاصل کیا ۔اب اگر پانامہ لیکس بارے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آنے کے بعد آصف علی زرداری جشن منا رہے ہیں کہ ایان علی اور ڈاکٹر عاصم سمیت بہت سے معاملات دب جائینگے اور وہ نہا دھو کر پاک صاف ہو جائینگے نیز اسی غسل صحت پر وہ مستقبل میں ملک کا اقتدار بھی سنبھال لیں گے تو این خیال است و محال است و جنوں۔ اس بارے واقفان حال کا کہنا ہے آصف زرداری کا پنڈورہ باکس ابھی اپنی باری کا منتظر ہے‘ جس کا تیہ پانچا بھی اسی طرح ہو سکتا ہے جیسے عدالت نے پانامہ لیکس کا ٹرائل کر کے دکھایا ہے۔ کرپشن کے اس حمام میں سبھی ننگے ہیں‘ دال میں کچھ کالا نہیں‘ ساری دال ہی کالی ہے اس لئے فانی بدایونی نے برملا کہا تھا ....
بدلناہے تو مے بدلو‘ نظام مے کشی بدلو
نہ جام و مینا کے بدل جانے سے کیا ہوگا
نوازشریف اور انکی حکومت کےخلاف بغض معاویہ نے رنگ دکھایا‘ مزا تو تب تھا نواز شریف اور انکی حکومت کےخلاف یار لوگ ذاتیات کو ایک طرف رکھ کر عدالت میں جاتے‘ لیکن ایسا نہیںہوا۔ اس کا ثبوت بہت واضح اور صاف یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے دو ججوں کے اختلافی نوٹس کے باوجود جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا۔ اگر یہ کیس ذاتیات پردائر نہ کیا جاتا تو یقیناً جے آئی ٹی کی ضرورت محسوس ہوتی اور نہ ہی کرپشن کی دنیا کے بعض ”بادشاہ“ جو عیش و نشاط کے مزے لوٹ رہے ہیں‘ عدالت سے باہر دندناتے پھرتے۔ سوال صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کے عوام یہ تماشا آخر کب تک دیکھتے رہیں گے؟ 2018ءکے الیکشن میں تو بہرطور انہیں یہ فیصلہ کرنا ہی ہوگا کہ ملک کا مجموعی نظام کس حکمت عملی کے تحت کرپشن سے پاک کیا جائے۔ اس وقت پاکستان اپنے چند مضبوط قومی اداروں کی فعالیت اور توانائی کے ساتھ جی رہا ہے‘ ان میں فوج‘ پارلیمنٹ اور عدلیہ سرفہرست ہیں‘ کرپشن کرپشن کے شور میں ان متذکرہ بالا قومی اداروں کی عزت و حرمت پر اگر کوئی حرف آئے تو پھر یقیناً یہ سمجھ لینا چاہئے کہ پاکستان کے خارجی دشمن جن میں ہمارا ازلی دشمن سب سے آگے ہے اپنی ریشہ دوانیوں سے باز نہیں آرہا‘ لہٰذا اس وقت پاکستان کی نوجوان نسل اور محب وطن عوام کا فرض اولین ہے کہ وہ جہاں 2018ءکے الیکشن میں بحیثیت مجموعی ملک کا نظام درست کرنے کی مساعی کریں‘ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے قومی اداروں کا تحفظ کرنے کا فرض بھی پورا کریں۔