وزیرستان پسماندگی کے تناظر میں
جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کوئی بڑا ملک نہیں مگر قدرت نے ہمیں ہر نعمت سے نوازا ہے۔ ریگستان، پہاڑ، سر سبز و شادات میدانی علاقے سمندر گرم ترین اور سرد ترین موسم نخلستان اور جنگلات کی بھرمار مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ان نعمتوں کے باوجود ان سے استفادہ حاصل نہیں کیا جا رہا نہ صرف حکومتی سطح پر ان سے فائدہ اٹھانے کی منصوبہ بندی نہیں کی جا رہی ہے بلکہ عوام الناس کی طرف سے بھی ان علاقوں میں توجہ دینے یا وہاں پر سیر گاہیں تعمیر کرنے کا کوئی عملی نمونہ سامنے نہیں آرہا۔ ہمارے امراءاور اعلیٰ عہدیدار جو اپنا سرمایہ باہر بھیج رہے ہیں اگر وہ یہی دولت اپنے ملکی وسائل کو بہتر طریقے بروئے کار لانے پر استعمال کریں تو یقیناً ہمیں کسی سے کچھ مانگنے کی ضرورت نہیں۔ وزیرستان کا قبائلی علاقہ پاک افغان سرحد کے ساتھ پھیلے ہوئے وسیع رقبے پر مشتمل ہے اس کی سرحدیں، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان جیسے اضلاع سے ملتی ہیں۔ یہ علاقہ تاریخی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے جہاں سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان صدیوں سے آمدورفت ہوتی رہی ہے اور یہ سلسلہ اب جاری ہے۔ یہاں پر آباد قبائل سرحد کے اس پار بھی رہتے ہیں اور ان کے آپس میں گہرے خاندانی، معاشی، مذہبی، معاشرتی اور سماجی روابط قائم ہیں جن سے انکار ممکن نہیں، افغانستان کے حالات اس خطے پر براہ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔ یہاں کے لوگ روایتی طور پر مذہبی رجحان رکھتے ہیں اور اپنی مخصوص قبائلی ثقافت اور روایات کے حامل ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے یہ علاقہ عسکریت پسندی اور شدت پسندی کی آماجگاہ بن چکا ہے جس کی بہت سی وجوہات ہیں اور ان میں سب سے بڑی وجہ افغانستان میں امریکی موجودگی اور مداخلت ہے۔ یہ خطہ بے پناہ قدرتی وسائل سے مالامال ہے جن میں کرومائیٹ اور ماربل کے وسیع معدنی ذخائر بیش قیمت عمارتی لکڑی کے جنگلات، آبی ذخائر اورپھلوں کے باغات دلکش قدرتی مناظر ہیں جن کو اگر باقاعدہ منصوبہ بندی سے بروئے کار لایا جائے تو یہ علاقہ کسی دوسرے ترقیاتی علاقے سے کم نہ ہوتا، بے پناہ قدرتی وسائل کے باوجود مقامی لوگوں کا طرز زندگی پسماندگی کی حدوں کو چھو رہا ہے، یہاں کے لوگ جفاکش جری اور محنت کرنے کے جذبے سے مالا مال ہےں۔ جن میں سے ایک کثیر تعداد بیرون اور اندرون ملک محنت کر کے مختلف شعبوں میں نہ صرف اپنے لیے روزی کماتی ہے بلکہ مختلف شعبوں کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اپنے آبائی علاقے میں سہولیات کے فقدان اور حکومتی عدم توجہی کے باعث اس بیش بہا افرادی قوت سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ معاشی عدم توازن، زندگی کی بنیادی سہولتوں کا فقدان، جہالت، غربت اور بے روزگاری نوجوان نسل کو شدت پسندی کی طرف راغب کرتی ہے اور وہ ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے منفی اور ملک دشمن سرگرمیوں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ عوام کی کثیر تعداد نہ صرف محب وطن ہے بلکہ محنت کرکے روزگار کے متلاشی ہے چند مخصوص افراد اور گروہوں نے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کےلئے پورے علاقے کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ نتیجتاً عام آدمی مسلسل اذیت کا شکار ہے، حکومتی سطح پر صورتحال کی بہتری کےلئے کوئی دیر پا اقدامات نہیں کئے جارہے، وزیرستان کو دنیا بھر میں ایک دہشت کی علامت بنا کر رکھ دیا گیا ہے اگر عوامی خواہشات کے مطابق پالیسی بنائی جائے جن میں مقامی روایات کو مدنظر رکھا جائے تو وزیرستان کے بے پناہ قدرتی وسائل نہ صرف اس علاقے کی ترقی میں اہم سنگ میل ثابت ہوسکتے ہیں بلکہ مجموعی قومی ترقی میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف مقامی آبادی کا فائدہ ہوگا بلکہ مجموعی ملکی تاثر کو بہتر بنانے میں بھی بے پناہ مدد ملے گی اور نوجوان نسل شدت پسندوں کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوگی۔
حال ہی میں شمالی وزیرستان کے علاقے رزمک میں جانا ہوا تو وہاں کی خوبصورت دل پذیر وادیوں کی ویرانی دیکھ کے دل خون کے آنسو رونے لگا، عورت جو کائنات کا حسن ہے وہ وہاں نظرنہیں آتی۔ وہاں کے علاقے کے مشر ملک انور جن کا تعلق خوشحالی طوری خیل قبیلے سے ہے، ان کے گھر مکمل انتظام کے ساتھ میں ایک ٹیچر بسمین ابراہیم کو انٹرپریٹر Interprator کے طور پر ساتھ لے کے گئی تو وہاں پہ اردگرد کے گھروں کی بیس پچیس عورتیں اور بچیاں بھی جمع ہو گئیں۔ سندور اور میدے سے گندھی خوبصورت لڑکیاں اور عورتیں دیکھ کے میں ورطہ حیرت میں گم ہوگئی، وہاں پہ ہرعورت کےلئے شادی کے بعد بچہ پیدا کرنا لازمی امر قرار دیا جاتا ہے جس کی اولاد رضائے الہٰی سے نہیں ہوتی وہ دو تین بچوں کے پیدائش کے بعد بچہ پیدا نہیں کرتی تو طلاق دے دی جاتی ہے یا مرد فوراً دوسری شادی کر لیتا ہے شمالی وزیرستان میں ایک عورت جوکہ چار بچیوں اور چھ بیٹوں کی ماں تھی سے پوچھا کہ آپ کی گود میں اتنے پیارے بچے اور بچیاں ہیں مگر ان کا مستقبل کیا ہو گا تو پتہ چلا کہ بیچ دیا جانا، قتل کر دیا جانا، جب تک ان کی بیٹی دس بارہ سال کی نہیں ہوتی تو یہ اپنے باپ کی آنکھ کا تارا ہوتی ہے اور باپ بازاروں سے چیزیں لالاکر اس کی خواہشیں پوری کرتا ہے مگر جیسے ہی اس کےلئے رشتہ آتا ہے اور اس بچی کی قیمت ساٹھ ہزار سے بڑھتی چلی جاتی ہے تو لڑکے کو دیکھ کر اس کو بیاہ دیا جاتا ہے چاہے لڑکا بیٹی کی عمر کا ہو یا باپ کی عمر کا۔ بیچ دیئے جانے کے خوف سے اور بوڑھوں سے شادی کر دیئے جانے پہ وہاں پہ خودکشی کی شرح بڑھ رہی ہے لڑکیاں اپنے گھر میں موجود بندوق سے خود کو گولی مار لیتی ہیں یا پھر چوہے مار دوائی جو کہ گھر میں کافی مقدار میں چوہے ہونے کی وجہ سے رکھی جاتی ہے کھاکر مرجاتی ہیں۔ بسمین ابراہیم جو کہ گورنمنٹ گرلز سکول میں پڑھاتی ہے، ایم اے اردو تھی، پتہ چلا کہ ان کے والد ابراہیم نے جو کہ وہاں پہ میڈیکل سٹور چلاتے ہیں نے رزمک کے سرداروں سے باقاعدہ بیٹیوں کو پڑھانے کی اجازت مانگ رکھی تھی جن کی بناءپہ ان کی بڑی بیٹی نے ایم ایس سی کیمسٹری کر لی۔ بسمین نے ایم اے اردو، باقی دو بیٹیاں اور بیٹے بھی پڑھ رہے ہیں۔ بسمین کی یہ بات سن کر انتہائی خوشی ہوئی کہ وہ فوج میں آنا چاہتی ہےں اور پاکستان کےلئے ہرطرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ رزمک میں شاید ایک ہی ابراہیم ہے اور دوسرا ڈھونڈنے سے نہیں ملتا اور شاید نہ ہی کبھی ملے گا کیونکہ ابراہیم ایک نڈر آدمی ہے اور اس نے اپنی بیٹیوں کو بنوں میں رہ کے پڑھایا ہے اور اب رزمک میں آباد ہو گیا ہے۔ہم زمانے کے اس دور سے گزر رہے ہیں جہاں عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کرنے لگی ہے بےشمار پسماندہ علاقوں کی خواتین اب اپنے گھر کی غربت اور پسماندگی ختم کرنے کےلئے تعلیم حاصل کر کے عزت کی روٹی کما رہی ہیں کیا بسمین ابراہیم جیسی لڑکیاں بھی انہی علاقوں کی عمر رسیدہ مردوں کی بیویاں بن کے اپنی عمر کوچکی کے پاٹ میں پیس کر ختم ہو جائیں گی کیا ان کو زندگی کے اس تعفن سے نکالنے کےلئے کسی انقلاب کا انتظار کرنا ہو گا؟