جنرل ضیاءالحق پیپلز پارٹی کو ملک دشمن قرار دیکر بین کرانا چاہتے تھے‘ روئیداد خان
لاہور (فررانہ چودھری/ سنڈے مےگزےن)جنرل ضےاءالحق پےپلز پارٹی کو ملک دشمن قرار دے کر بےن کرانا چاہتے تھے۔ قانونی طور پر ذوالفقارعلی بھٹو پر کوئی کےس نہےں بن سکتا تھا۔ جنرل ضےاءالحق کو آئےنی اختےار تھا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی جان بخشی کر سکتے تھے۔میاں نوازشریف کی کوشش ہوتی ہے کہ آرمی چیف اپنا ہو، میاں صاحب آرمی چیف کو انسپکٹر جنرل آف پولیس کی طرح ٹریٹ کرتے ہےں۔ غلام اسحاق خان آرمی کی مدد سے پاکستان کے صدر رہے۔مجھے حاکم علی زرداری نے کہا یہ آصف علی میرا بیٹا ٹکٹ بیچتا ہے۔ زرداری لندن مےں بے نظےر کو ہر روز فلاور کٹ اور چاکلیٹ بھیجتے تھے۔ بے نظےر آصف زرداری سے بہت محبت کرتی تھےں۔ ان کے خلاف ایک بات بھی سننا پسند نہیں کرتی تھیں۔آصف علی زرداری کا نام نگران وزراءکی لسٹ سے نکالنے کو کہا تو بے نظیر چیخ کر بہت اونچا بولیں، رونے لگےں اور کہا آپ آصف زرداری کو لیں ورنہ سب ختم۔ چیئرمین سی بی آر طلعت کوآصف زرداری نے مغلظات سنائے تو بے نظےر نے شوہر کے منہ پر ہاتھ رکھ دےا۔ ےہ باتےں دانشور‘ تجزیہ نگار اور پاکستان کے اہم تاریخی موقعوں کے چشم دےد گواہ روائیداد خان نے نوائے وقت کے سنڈے مےگزےن کو انٹروےو دےتے ہوئے کےں۔انہوں نے کہا کہ میں اس وقت سیکرٹری جنرل وزارت خارجہ تھا، مجھے جنرل ضیاالحق نے پیپلز پارٹی کو ملک دشمن قرار دے کر بین کرنے کو کہا، ہم نے انکار کردیا ۔ وہ سمجھتے تھے کہ وزارت داخلہ کے پاس پیپلز پارٹی کے خلاف بہت مواد ہے مگر چھپایا ہوا ہے تو انہوں نے کوئٹہ سے ایک جنرل کو بلواکر وزارت خارجہ کے دفتر بیٹھا دیا کہ پی پی پی کے خلاف ریکارڈ اکٹھا کرو۔ مگر انہیں بھی کچھ نہ ملا۔ بھٹو کیس میں جنرل ضیاالحق نے مجھے سائیڈ لائن کیاہوا تھا۔ وزارت داخلہ کے ذریعے ہی مرشی پٹیشن کی پروسس ہوسکتی تھی تو میں نے بڑی مضبوط سمری تیار کی کہ ذوالفقار علی بھٹو پر کوئی کیس نہیں بن سکتا۔ جنرل ضیاالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ختم کرنے کا آئینی اختیار استعمال نہ کیا۔ جنرل ضیاالحق بڑی خوبصورتی سے جھوٹ بول جاتے تھے۔ مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کے ذمہ دار جنرل یحییٰ، ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن تھے۔ پاکستان میں 1970ءکے الیکشن کے سوا کوئی الیکشن فیئر نہیں ہوئے۔ بھٹو نے مجھے کہا جنرل یحییٰ نے شیخ مجیب الرحمن کے دباﺅ میں آکر میری اجازت کے بغیر پارلیمنٹ کے اجلاس کی تاریخ مقرر کردی۔ آپ ڈھاکہ میںلاءاینڈ آرڈر کی سچویشن کرےٹ کر دو، کچھ لاشیں گریں گی، ڈیٹ ملتوی کرنے کی یہ بہت اچھی سچویشن ہوگی۔ اس کے بعد میری بھٹو سے ائرپورٹ پر ملاقات ہوئی تو بھٹو نے کہا کتنے مارے ہیں؟ میں نے کہا مجھے تو پتہ نہیں۔ بھٹو کو پھانسی کے تختے پر لے جانے والا ان کا فیورٹ مسعود محمود تھا جو جنرل ضیاالحق کے کہنے پر وعدہ معاف گواہ بنا۔ گواہی دےنے کے بعد مسعود محمود امرےکہ چلا گیا۔ مجھے ملا تو کہنے لگا جنرل ضیاالحق سے کہنا مجھ سے جو وعدے کئے تھے وہ پورے نہیں کئے گئے۔ میں نے جنرل ضیاالحق کو بتاےا تو جنرل ضیاالحق نے کہا ”رات گئی بات گئی“۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک مرتبہ جنرل ضیاالحق کا تعارف فارن سفیر سے My Monkey General کہہ کر کروایا۔ بھٹو کو اپنی زبان پرکنٹرول نہیں تھا۔ جب مےں سیکرٹری جنرل وزیر داخلہ ریٹائرڈ ہوا تو مجھے بے نظیر نے اپنی پھوپھو کے گھر 18-B کلفٹن میں ملاقات کے لئے بلوایا۔ میں نے ان کے صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ تعلقات ہموار کروائے۔ بینظیر نے کہا صدر غلام اسحاق خان میرے نامزد صدر ہوںگے غلام اسحاق کو بتا دیںمگر بعد مےں مکر گئےں۔صدر غلام اسحاق خان اور میاں نواز شریف کے درمیان جنرل فرخ کو آرمی چیف لگانے پر بھی اختلاف ہوا۔ میاں نواز شریف نے کہا جنرل فرخ کو آرمی چیف لگائیں گے تو میں استعفیٰ دے دوں گا۔ میں نے چودھری نثار کے کہنے پر معاملے کو سنبھالااور جنرل فرخ کی بجائے جنرل وحید کاکڑ کا انتخاب کیا گیا۔ اس کے بعد بھی میاں نواز شریف کے معاملات ٹھیک نہ ہوئے اور قوم سے خطاب میں کہہ دیا کہ میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا۔ میں اس وقت جنرل وحید کاکڑ کے گھر پر موجود تھا۔ میں نے کہا وزیراعظم اور صدر توایک دوسرے کے گریبان تک پہنچ گئے ہیں۔ جنرل وحید کاکڑ نے کہا میں مارشل لاءنہیں لگاﺅں گا۔ آپ صدر سے جاکر ملو اور کہو کہ وہ جو بھی آئینی قدم اٹھائیں گے، فوج ان کو سپورٹ کرے گی مگر کور کمانڈر کی میٹنگ میں کہا گیا صدر اسحاق سے استعفیٰ لیا جائے اور جنرل وحید کاکڑ بدل گئے۔ روئےداد خان کے دلچسپ انٹروےو کو دوسرا اور آخری حصہ 14مئی کے سنڈے مےگزےن نوائے وقت مےں شائع کےا جارہا ہے۔