سول ملٹری تعلقات بہتر مگر دھماکے اور دھمکیاں
آخر نوازشریف کو یہ کیوں کہنا پڑتا ہے کہ ہماری حکومت مینڈیٹ لے کر آئی ہے۔ پہلے گبھرائے نہ آئندہ گبھرائیں گے۔ یہ بیان ہی ان کی خفیہ گبھراہٹ کا ثبوت ہے۔ انہوں نے اپوزیشن کو دعوت دی کہ اپوزیشن سیر کرے اور ہمارا انقلاب دیکھے۔ سیاسی قیادت اور فوجی قیادت کے درمیان صرف پاکستان میں غلط فہمیاں اور رنجشیں کیوں پھیلائی جاتی ہیں۔
میں کئی برس پہلے انگلستان گیا تھا۔ مگر وہاں کسی حکمران نے کسی سڑک کو انقلاب نہیں کہا تھا۔ کبھی کسی حکمران نے نہ کہا تھا کہ مینڈیٹ لے کر آئے ہیں جب وہ مینڈیٹ لے کے آئے ہیں تو بار بار بتانے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ کیا کمپلیکس ہے؟ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ حکومت کرنے کی مدت پوری نہ کرنے دی جائے۔ ہڑتالیں اور دھرنے جاری رکھے جائیں۔ اس سارے معاملے کو جمہوری عمل کہا جاتا ہے۔ جبکہ احتجاج کے بہت سے مثبت طریقے ہیں مگر ہمارے ہاں منفی سیاسی سرگرمیاں کیوں پسند کی جاتی ہیں؟
وزیراعظم نوازشریف کسی عام جلسے سے خطاب کرتے ہیں تو ان کا انداز اپوزیشن لیڈر والا ہوتا ہے۔ انتخابی سیاست پانچ سال تک ختم نہیں ہوتی۔ اصل اپوزیشن پاکستان میں عمران خان ہیں۔ وہ صرف حکومت گرانے کی بات کرتے ہیں۔ شیخ رشید تو حکومت کے جانے کی خوشخبریاں باقاعدہ تاریخیں دے کے سناتے رہتے ہیں حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ اپوزیشن کو کم سے کم موقعہ دے کہ وہ ایسی ویسی بات کریں۔ کرپشن ہی ختم کی جائے ورنہ کم کی جائے۔
نوازشریف کی کابینہ میں اکلوتے دبنگ وزیر چودھری نثار نے بڑی زبردست اور بامعنی بات کی ہے۔ وہ تنہا وزیر ہیں جن کا بیان سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ لوگ تو اکثر وزیروں کے نام بھی نہیں جانتے۔ ورنہ ریاض پیرزادہ بھی وزیر ہیں اور ”قابل ذکر“ وزیر ہیں کہ لوگ ان کا نام جانتے ہیں۔
پیرزادہ صاحب نے سیاسی غیرت کا مظاہرہ کیا جبکہ ایسی حرکت کا رواج ہمارے سیاسی ماحول میں نہیں ہے۔ انہوں نے اس لئے استعفیٰ نہیں دیا تھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ ان کے پاس کسی غیر وزیر یا غیر مفید آدمی کے لئے وقت کہاں ہو گا۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ وہ کرتے کیا ہیں۔ ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ وہ جلسوں میں تقریریں کرتے ہیں۔ جوش میں بھی آتے ہیں اور کبھی کبھی مزاحیہ بات بھی کر دیتے ہیں۔ وہ ملاقاتیں بھی کرتے ہیں۔ اکثر اوقات ان لوگوں کو ہم جانتے بھی نہیں ہوتے تو آخر ریاض پیرزادہ کے لئے ان کے پاس وقت کیوں نہ تھا؟
پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ عوام ہر بار ان کو ہی منتخب کرتے ہیں۔ یہ کیا کم اعزاز پاکستانیوں کے لئے ہے کہ ان کا ایک وزیراعظم تیسری بار وزیراعظم بنا ہے۔ چوتھی بار وزیراعظم بننے کی خبریں آ رہی ہیں اور لائی جا رہی ہیں۔ خود وزیراعظم نوازشریف نے ایسے اشارے دیئے ہیں اور کئی جگہوں پر گو نواز گو کے نعرے بھی لگے ہیں۔ نوازشریف کے بعد سب سے بڑی لیڈر مریم نواز نے بھی چوتھی بار کے لئے باقاعدہ خبر دے دی ہے۔ یہ دنیا بھر کے لئے ایک ریکارڈ ہو گا۔ اب تو کبھی کبھی رو عمران رو کے نعرے بھی لگتے ہیں جبکہ وہ زندگی میں ایک بار بھی نہیں روئے ہوں گے؟ اپنی والدہ کے لئے ایک اعلیٰ اور قابل تعریف کینسر ہسپتال شوکت خانم کے نام پر بنا دیا۔ مگر ماں کی موت پر ایک آنسو نہ بہایا۔
میں نے ایک ملاقات اور کئی کالموں میں عمران خان سے کہا تھا کہ چھوٹا موٹا عام سا مگر بہت اچھا ہسپتال میانوالی میں بھی بنا دیں۔ بڑے ہسپتالوں کے لئے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ یہاں کروڑوں بھی خرچ نہ ہوں گے مگر انہوںنے اب تک بے بس غریب مگر وفادار لوگوں کے لئے کچھ نہیں کیا جنہوں نے اپنے ووٹ سے ان کو اتنا بڑا لیڈر بنا دیا ہے۔
اصل بات تو میں بھول گیا جس کے لئے کالم شروع کیا تھا۔ چودھری نثار نے کہا سول ملٹری تعلقات پر صرف پاکستان میں سیاست ہوتی ہے۔ یہ سیاسی تماشا نہیں لگنا چاہئے۔ قومی اسمبلی کے سپیکر بہت نوبل آدمی ایاز صادق نے کہا ہے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں۔ مگر اس صفحے کے دوسری طرف کیا لکھا ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ یہ تحریر صرف چودھری نثار پڑھ سکتے ہیں مگر وہ بتاتے کسی کو نہیں۔ نوازشریف کو بھی نہیں بتاتے۔ شاید شہباز شریف کو کچھ بتا دیتے ہیں کہ دونوں میں دوستی بڑی پکی ہے اور وہ کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوئے۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے جو بات کی ہے وہ دوسرے بھی کرتے ہیں مگر اب یہ ایک چیلنج ہے۔ ایاز صادق اس کے لئے کوئی م¶ثر اور مستحکم کارروائی کریں۔
اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے دو کتابیں ملی ہیں۔ ”سید ضمیر جعفری شخصیت اور فن“ اور منتخب سندھی کافیوں کا منظوم اردو ترجمہ ”سندھی وائی/ کافی“ پہلی ڈاکٹر عرفان اللہ خٹک اور دوسری کتاب امیر بخاری نے لکھی ہے۔ اشاعت کے لئے نگران اعلیٰ چیئرمین اکادمی پروفیسر ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو ہیں۔ پچھلے دنوں اسلام آباد میں ممتاز شاعرہ ادیبہ عائشہ مسعود کے ہمراہ ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ انہوں نے اکادمی کے زیراہتمام کئی ادبی منصوبوں پر روشنی ڈالی تھی۔