نیوز لیکس کا تنازعہ ختم‘ اپوزیشن غیر مطمئن ‘ نثار کو ادھار اتارنے کا موقع نہ ملا
اپوزیشن کی ریکویذیشن پر طلب کردہ اجلاس کی اہم بات یہ ہے ڈان لیکس پر انکوائری رپورٹ کا معاملہ زیربحث آیا۔ اس معاملہ پر جہاں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن نے دھوں تقریر کی وہاں چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی ڈان لیکس پر دو فریقوں کے درمیان معاملہ طے ہونے حکومت کے سامنے سوالات کھڑے کر دئیے ہیں کہ نیوز لیکس سے متعلق سرکاری بیان میں دو فریقین سے کیا مطلب ہے، کیا حکومت آئین کی شق 243 پر یقین نہیں رکھتی جس کے تحت فوج کا اختیار حکومت کے پاس ہے۔ چیئرمین سینٹ نے پریس ریلیز میں دونوں فریقین کے ہم پلہ ہونے کے تاثر کے معاملے پر رولنگ محفوظ کرلی ہے۔ نیوز لیکس پر بحث مکمل ہونے کے موقع پر چیئرمین سینٹ نے کہا کہ آئین تو یہی کہتا ہے کہ مسلح افواج پر کنٹرول اور کمانڈ وفاقی حکومت کا ہے۔ چوہدری اعتزاز احسن کی تقریر کا جواب دینے کے لئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سینٹ کے اجلاس میں آئے لیکن چوہدری نثار علی خان کی تقریر کی طوالت کی وجہ سے اٹھ کر چلے گئے۔ چیئرمین سینٹ نے نماز جمعہ کے وقفہ کے بعد اجلاس جاری رکھنے کا فیصلہ کیا نماز جمعہ کے بعد چیئرمین سینٹ اور قائد حزب اختلاف راجہ محمد ظفر الحق کے چیمبر میں آگئے اور انہیں مستونگ میں ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری پر خودکش حملہ کے بارے میں آگاہ کیا اور اجلاس کے جاری رکھنے یا نہ رکھنے کے بارے میں مشاورت کی۔ یہ بات قابل ذکر ہے چوہدری نثار علی خان تو ایوان سے اٹھ کر چلے گئے تھے لیکن ان کی جگہ سینٹ میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر مشاہد اللہ خان کو جواب دینے کے لئے راجہ محمد ظفر الحق کی طرف سے گرین سگنل مل چکا تھا لیکن صورت تبدیل ہونے کے بعد انہوں نے اپنی تقریر کا پروگرام پیر تک موخر کر دیا۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ پیر کو چوہدری نثار علی خان یا مشاہد اللہ خان چوہدری اعتزاز احس کا چڑھایا ہوا ادھار اتاریں گے۔ وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ دو فریقین کا مطلب حکومت اور فوج ہے۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ میں ان کے جواب سے مطمئن نہیں ہوں۔ قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈر اور پارلیمانی رہنمائوں سے بات کرونگا پھر فیصلہ کروں گا کہ اس معاملے پر سینٹ کیا کردار ادا کرسکتی ہے۔ چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ بحث کو وفاقی وزیر پارلیمانی امور نے سمیٹنا ہے تو ہم ان کا بیان نہیں سنیں گے ۔ 20 منٹ تک اپوزیشن ایوان سے باہر رہی اور حکومتی یقین دہانی پر واپس آ گئی۔چوہدری اعتزاز احسن نیوز لیکس کے بارے میں وزیراعظم نوازشریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان معاملہ طے کرنے کے بارے میں پارلیمنٹ میں وضاحت پیش کرنے کا مطالبہ کرتے رہے اور کہا کہ ایسا ہونا تھا تو سات ماہ سے قومی سلامتی کی رٹ کیوں لگائی گئی۔ فوج نے سول حکومت کے سامنے سر جھکایا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر ٹوئٹ پر میں نے ایک گھنٹہ کے اندر بات کی کہ ایک میجر جنرل کو وزیراعظم کا حکم مسترد کرنے کی جرات کیسے ہوئی حکومت کی سات ماہ ٹانگیں کانپتی رہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ 29اپریل اور 8مئی2017ء کے نوٹیفکیشن میں کیا فرق ہے؟ نماز جمعہ کے بعد سینٹ کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو چیئرمین سینٹ نے ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر دہشت گردی کے حملے کے واقعہ کی تفصیلات بتائیں تو پورا ایوان سوگ میں ڈوب گیا۔ چیئرمین سمیت ارکان آبدیدہ ہو گئے ‘ ڈیوٹی پر موجود سٹاف کے افسر رو تے رہے ، ایوان کی معمول کی کارروائی کو معطل کر دیا گیا۔ واقعہ پر بحث کے دوران اراکین سینٹ نے ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے قافلے پر حملے کو ریاست پر حملہ قرار دیدیا۔ سینٹ کی تاریخ کا انتہائی دکھی دن ہے ریاست کا محفوظ نہ ہونا موجودہ حکومت کے لئے چیلنج ہے۔ مدرسہ کے 25 معصوموں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔دھرتی پر موجود آخری دہشت گرد کے خاتمے تک مل کر لڑنا ہے۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ کیا وجہ ہے بلوچستان اب تک بدامنی کی آگ میں جل رہا ہے۔ مولانا عبدالغفور حیدری گاڑی کو تبدیل کرنے کی وجہ سے محفوظ رہے۔ عین وقت پر وہ اپنے ایک دوست کی گاڑی میں چلے گئے تھے۔ سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ ہمارے دل بھی دکھی ہیں، اراکین پارلیمنٹ کی زندگیاں دائو پر لگی ہوئی ہیں نیکٹا کیا کر رہی ہے۔ وزارت داخلہ جوابدہ ہے۔ چوہدری نثار بتائیں مسلسل دہشت گردی ہو رہی ہے ۔وفاقی وزیر حاصل بزنجو بلوچستان میں اداروں کی مشکوک افرادکی موجودگی کے بارے میں توجہ دلا چکے ہیں۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ ڈپٹی چیئرمین ریاست کے سب سے بڑے ادارے کا اہم عہدہ ہے۔ ڈپٹی چیئرمین ایک بڑی جماعت کے سیکرٹری جنرل بھی ہیں وہ بڑے ملنسار ‘ ہنس مکھ اور محبت کرنے والے شخص ہیں۔چیئرمین سینٹ میاںرضا ربانی نے سینٹ اجلاس کے دوران ڈان لیکس سے متعلق حکومتی جواب کو غیر تسلی بخش قرار دے دیا ہے۔ ایوان میں پرویز رشید کے شریف النفس ہونے ذکر ہوا تو کہا گیا کہ شاہداللہ خان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔حکومت نے اس معاملے میں 3 بکرے قربان کردئیے، پرویزرشید اور طارق فاطمی ایسا نہیں کرسکتے تاہم رائو تحسین کو بھی قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں جو میٹنگ میں تھے ہی نہیں۔