سینٹ: نیوز لیکس پر گرما گرمی‘ حکومتی جواب تسلی بخش نہیں: چیئرمین برہم
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نامہ نگار) سینٹ میں نیوز لیکس کے معاملے پر گرما گرم بحث ہوئی، وزیر داخلہ سے ایوان میں وضاحت کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر اپوزیشن نے واک آوٹ کر دیا، چیئرمین رضا ربانی نے حکومتی جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیدیا ہے۔ اعتزاز احسن نے نیوز لیکس کے بارے میں وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان معاملہ طے کرنے پر دونوں سے پارلیمنٹ میں وضاحت پیش کرنے کا مطالبہ کردیا، انہوں نے کہا ایسا ہونا تھا تو سات ماہ سے سلامتی کی رٹ کیوں لگائی گئی۔ فوج نے سول حکومت کے سامنے سر جھکایا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر ٹوئٹ پر میں نے ایک گھنٹہ کے اندر بات کی کہ ایک میجر جنرل کو وزیراعظم کا حکم مسترد کرنے کی جرات کیسے ہوئی حکومت کی سات ماہ ٹانگیں کانپتی رہیں اس ایشو پر حکومت نے کمیٹی بنائی ہم نے ا عتراض کیا تھا، ہمیں جے آئی ٹی پر بھی اعتراض ہے۔ 3بکرے قربان کئے گئے کسی اور کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ فوجی قیات ایک ایسی فوج کی قیادت ہے جو ملک کے چپے چپے پر لڑرہی ہے اور قربانیاں دے رہی ہے ہماری بحث کا جواب وزیر داخلہ کو دینا چاہئے۔ وزیر پارلیمانی امور کو ہم نہیں سنیں گے۔ میری نظر میں آرمی چیف اور وزیراعظم دونوں اس پارلیمنٹ کو جوابدہ ہیں دونوں پارلیمنٹ سے سپریم نہیں ہیں۔ میں وہ شخص ہوں جس نے 4 ملٹری ڈکٹیٹرز کے خلاف جنگ لڑی، ہم نے ملٹری ڈکٹیٹرز کا سامنا کیا اور پرویزمشرف کو بھگایا۔ شیخ آفتاب محنتی وزیر ہیں ان کی بھی جلد چھٹی ہوجائے گی لیکن معذرت کے ساتھ اس معاملے میں ہم وزیر پارلیمانی امور کو نہیں سنیں گے۔ چودھری نثار کو ایوان میں آکر وضاحت پیش کرنا ہوگی کہ اب معاملے کی تفصیلات کیا ہیں اور اس میں کس حد تک پیش رفت ہوچکی ہے ۔وزیر مملکت شیخ آفتاب نے کہا کہ یہ کسی کی جیت اور ہار نہیں، پارلیمنٹ ہی سپریم ہے لیکن جمہوریت کو تقویت ملی ہے اور ہمیں اب اس معاملے کوختم کردینا چاہیے۔بعض قوتیں نیوز لیکس کے معاملے پر جمہوری نظام کو غیرمستحکم کرنے کے درپے تھیں تاہم معاملے کو دانشمندی سے حل کر لیا گیا۔چیئرمین سینٹ نے شیخ آفتاب کے بیان پر کہا کہ حکومت کا استحقاق ہے کہ وہ کسی بھی وزیر کو بھیجے لیکن چوہدری نثار کوسینٹ کے اجلاس میں ہونا چاہیے تھا۔ معذرت کے ساتھ آپ کے جواب سے مطمئن نہیں، پریس ریلیز میں شامل دو فریقین کا کیا مطلب ہے، آئین کا مذاق نہ اڑایا جائے، اس معاملے پر میں قائد ایوان، قائد حزب اختلاف اور پارلیمانی لیڈرز کو اعتماد میں لوں گا۔علاوہ ازیں اپوزیشن سینیٹرز نے پانامہ کیس کی تحقیقات کیلئے قائم جے آئی ٹی کی کارروائی کو اوپن اور تمام دستاویزات کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پانامہ کیس کی تحقیقات کیلئے بنائی گئی جے آئی ٹی تاریخی ہے جس کی شفاف تحقیقات کیلئے اس کی کارروائی کو اوپن رکھا جائے، بدقسمتی سے پانامہ سکینڈل نے بھی ملک کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑا، سرعام ملک لوٹا جارہا ہے اور ہماری آنکھیں بند ہیں،ملک میں ایفی ڈرین سپلائی کرنے والا آج سپریم کورٹ میں کرپشن کے خلاف بات کررہا ہے، جن ممالک نے حقیقی لیڈر پیدا کئے وہ ملک آج ہر لحاظ سے مضبوط ہیں، آج سرمایہ دارانہ نظام نے میڈیا اور سیاست سب کو خرید لیا ہے جبکہ حکومتی سینیٹر ز کا کہنا تھا کہ ساری دنیا اس کی گواہ ہے کہ وزیراعظم پر جھوٹے الزام لگائے گئے ، جب مخالفین کی مرضی کے مطابق جواب نہیں آیا تو جے آئی ٹی پر بھی انگلیاں اٹھانے لگے ہیں،الزام لگانے والوں کا بھی احتساب ہونا چاہئے، آف شور کمپنیوں کے موجد نواز شریف نہیں بلکہ کوئی اور ہیں، سب کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے، جے آئی ٹی پر بھی انگلیاں اٹھا نے والے کسی بھی فورم کو نہیں مانتے، سی پیک کو روکنے کیلئے سازشیں کی جارہی ہیں اور پانامہ لیکس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، آج کرپشن کی باتیں وہ کررہے ہیں جن کا پورا جسم کرپشن سے داغدارہے ۔ ایوان میںمتعدد قائمہ کمیٹیوں کی رپورٹیں پیش کردی گئیں۔ ارکان نے مستونگ میں مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر دہشت گردی کے حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس علاقے میں پہلے بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے واقعات ہو چکے ہیں‘ انتہا پسندوں کا خاتمہ کرنا ہوگا‘ بلوچستان اور خیبرپی کے میں سینیٹرز کو سکیورٹی فراہم کی جانی چاہیے‘ تمام سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کا خاتمہ اور خارجہ پالیسی اپنی ترجیح بنانی چاہیے‘ نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کیا جائے‘ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام اور سیاسی قیادت کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ایوان میں سانحہ مستونگ اور 12 مئی کے شہداء کیلئے دعائے مغفرت بھی کی گئی۔