• news
  • image

انٹر نیشنل سیکورٹی پر چھٹی ماسکو کانفرنس

گزشتہ پانچ برسوں سے روس اپنے دارالحکومت ماسکو میں بین الاقوامی سلامتی پر سالانہ کانفرنسوں کی میزبانی کررہا ہے۔ اس سلسلے میں چھٹی کا نفرنس اس سال26تا27اپریل منعقد ہوئی۔ راقم کو بھی چھٹی کا نفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ پاکستانی وفد کی قیادت وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کررہے تھے۔ 29ملکوں نے وفود روانہ کئے تھے۔ بیشتر کی قیادت انکے وزرائے دفاع کررہے تھے۔ امسال سمپوزیم میں علاقائی سلامتی کے اہم مسائل زیر بحث رہے جن میںشام، لیبیا، یمن اور افغانستان میں خانہ جنگی کے مسائل نمایاں رہے۔بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بنیادی مسئلے کو زیر بحث لانے کے علاوہ ایشیا بحرالکاہل اور یورپ میں سیکورٹی کے مسائل، دہشت گردی کو شکست دینے میں فوج کا کردار، مشرقی وسطیٰ میں انسداد دہشتگردی اور انتہا پسندی کیخلاف جنگ، انفارمیشن اور معلومات کا تحفظ، بیلسٹک میزائل کے مضمرات اور وسطی ایشیا بشمول افغانستان میں سلامتی کے معاملات پہ بحث ومباحثہ مختلف سیشن میںتوجہ کا مرکزر ہے۔کانفرنس کا آغاز روسی صدر کے خصوصی پیغام سے اور خطبہ استقبالیہ سے ہوا جو روسی فیڈریشن کی سلامتی کونسل کے سیکرٹری نے پڑھ کر سنایا۔ روسی وزیر دفاع جنرل سر گئی شوئی گو، وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جیفری فیلٹ مین نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتھو نیوگوتیرس کا خصوصی پیغام پڑھ کر سنایا۔ اختتامی پلینری سیشن میں عالمی سلامتی اور اکیسویں صدی کے چیلنجوں پہ تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاکستان کے ویزدفاع خواجہ آصف نے پاکستان کودرپیش سلامتی بشمول دہشت گردی اور بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پہ ظلم، جبر واستبداد کا ذکر موزوں الفاظ میں کیا۔ کشمیر کا تذکرہ آتے ہی بھارتی وزیر دفاع ارون جیٹلی پوڈئم سے اٹھ کر چلے گئے۔ افتتاحی سیشن سے سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بھی خطاب کیا اور اپنی تقریر میں افغان کو درپیش تمام مسائل کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا۔دوسرے مباحثے یورپی، سلامتی، امکانات اور رجحانات، مشرقی وسطیٰ میں دہشتگردی اور انسداد بنیاد پرستی پہ مرکوز رہے۔ عرب اور اسرائل کے تنازع پہ مصری اور اسرائلی مندوبین میں تلخ کلامی بھی ہوئی۔ انفارمیشن تک رسائی، عالمی اور علاقائی سالمیت کے علاوہ بیلسٹک میزائل کے پھیلائو جیسے موضوعات زیر بحث آئے۔ وسطی ایشیا کی سکیورٹی اور افغان عنصر پہ گفتگو کے موضوع پہ راقم کو تقریر کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اسی سیشن میں بھارتی مندوب نندن انیکر شن نے افغانستان میں بھارتی کردار کو بڑھا چڑھاکربیان کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ایمبسڈر ضمیر کبولوو جن کا تعلق روس سے ہے اور اس سیشن کی صدارت کررہے تھے‘ وہ نندن کی تقریر کو سراہیں گے اور افغانستان میں بھارتی کردار کی تائید کرینگے‘ لیکن باضمیر روسی سفیر نے بھارتی مندوب کوکھری کھری سنادی کہ تم بھارتی خود کو بہت عقلمند سمجھتے ہو۔ اتنا عرصہ روس کے حلیف بنے رہے اور اب امریکہ کی ٹنڈیلی کررہے ہو۔ جائو امریکہ کے پاس۔کانفرنس کے پہلے دن باقاعدہ مباحثوں کے اختتام پر روسی وزیر دفاع کی جانب سے تمام مندوبین کیلئے شاندار ضیافت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ روایتی روسی کھانوں کے ساتھ روسی مسلح افواج کے طائفے روسی تہذیب وتمدن کو اجاگر کرنے کی خاطر موسیقی، رقص اور گیتوں کا مظاہرہ کرر ہے تھے۔ میزبان جنرل سرگئی شوئی گونے اپنے خطبہ استقبالیہ میں حاظرین کے دل موہ لئے جب انہوں نے دعا کی کہ ’’دنیا میں امن ہو تاکہ مسلح افواج برقرار رکھنے کی ضرورت ختم ہو جائے۔‘‘ روس اس وقت دنیا کو درپیش مختلف مسائل خصوصاً خانہ جنگی، دہشت گردی اور داعش کی جانب سے خطرات سے نمٹنے کی خاطر پیش پیش ہے۔ اس تگ و دو میں یہ حسن اتفاق ہے کہ روس اور امریکہ مختلف جنگوںکے محاذ پہ مخالف سمتوں پہ نبرد آزما ہیں۔ شام میں روس داعش کے ٹھکانوں کو فضائی حملوں سے تباہ کرنے کے درپے ہے جبکہ امریکی حملے شامی حکومت کو ہدف بنارہے ہیں اور صدر بشارالاسد کو حریف قرار دیتے ہیں۔ افغانستان میں امن قائم کرنے کی کوشش میں روس، چین اور پاکستان سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں جبکہ روس کی جانب سے دعوت کے باوجود امریکہ اس کوشش سے خودکو دور رکھتا ہے۔ زخموں پہ نمک پاشی کرتے ہوئے امریکہ نے روس پہ الزام لگایا ہے کہ وہ طالبان کو مسلح کررہا ہے۔ یہ قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ1980ء کی دہائی میں افغانستان پہ سوویت یونین کی فوجوں کا قبضہ تھا اور امریکہ نے افغان مجاہدین کو گوریلا جنگ کی تربیت دیکر مسلح کرکے انہیں سوویت فوجوں سے جنگ کی خاطر روانہ کیا تھا۔ سوویت یونین پاش پاش ہو گیا تھا۔ روس انکار کررہا ہے کہ وہ طالبان کی پشت پناہی کررہا ہے‘ لیکن ماسکو میں سہ فریقی امن مذاکرات برائے افغانستان منعقد ہونے سے صرف ایک دن قبل امریکہ نے اپنے اسلحہ خانے کا سب سے بڑا بم افغانستان میں گرا کر متعدد لوگ ہلاک کردیئے۔کانفرنس کے دوسرے دن روسی فیڈریشن کی غیرملکی انٹیلی جنس سروس کے ڈائریکٹر سر گئی نرینشکن نے اپنی تقریر سے پروگرام کا آغاز کیا۔ اس سیشن میں ایشیا بحرالکاہل میں مفادات کے توزان یا فوجی تعطل کے موضوع پہ گفتگو کی گئی۔اس اہم موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے چینی مندوب میجر جنرل شائویوانمنگ جو چینی مسلح افواج کے ڈپٹی چیف ہیں اور چینی ملٹری کمیشن کے ماتحت، نے اپنی تقریر میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے یقین دلایا کہ چین کسی بھی ملک کیخلاف سامراجی خیالات نہیں رکھتا۔ چین ایک امن پسند ملک ہے‘ لیکن عالمی سلامتی کے تناظر میں دنیا کو درپیش مسائل بالا خصوص ایشیا بحرا لکاہل میں درپیش چیلنجوں کا سامنا کرنے کی خاطر اپنا کردار ادا کرنے کی خاطر کوشاں ہے۔جنرل شائو نے واضح کیا کہ عالمی معیشت کے زوال کے باعث سیکورٹی چیلنجوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سلسلے میں چین ترقی یافتہ اور ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان خلاء کو پُرکرنے کی خاطر پل تعمیر کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ انہوں نے اس جانب اشارہ کیا کہ کچھ ممالک ان سیکورٹی چیلنجوں کو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر استعمال کرکے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے کی سازش میں مشغول ہیں۔ چین اس استحصال کی مذمت کرتا ہے۔ چینی حکومت کی جانب سے تمام چیلنجوں کو حل کرنے کا اعادہ کیا گیا ۔ چونکہ کسی ایک ملک کیلئے تمام چیلنجوں سے اکیلے نمٹنا ممکن نہیں، چین نے اجتماعی کوشش کا منصوبہ پیش کیا تاکہ درپیش مسائل سے خوش اسلوبی سے نمٹا جائے۔ چین نے تجویز پیش کی کہ کوریا کے خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک رکھنا چاہئے جبکہ امریکہ کو جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں کو ترک کر دینا چاہیے۔ چینی صدر شی جن پنگ کی عالمی اقتصادی تعاون کو تجویز ’’ جدید شاہراہ رشیم ‘‘ کی افادیت کو بھی اجاگر کیا گیا کہ اس بین الاقوامی منصوبے سے پوری دنیا کو فائدہ پہنچے گا۔
گفتگو علاقائی سلامتی کودرپیش خطرات، سمندری راستوں کے تحفظ، فوجی اتحاد، طاقت کا توازن اور استحکام کی خاطر فوجی مکالمے اور فوج کے کثیرالجہتی تشخص کے پہلوئوں پہ غور کیا گیا۔ اختتامی سیشن میں علاقائی اور عالمی مسائل کے ممکنہ حل کے مختلف پہلوئوں پہ روشنی ڈالی گئی جس میں فوجی تعاون کو اجاگر کیا گیا۔روس کی وزارت دفاع کا کردار قابل تحسین ہے کہ اس نے عالمی خطرات، چیلنجوں اور بین الاقوامی دہشت گردی اور انتہاپسندی جیسے اہم موضوعات پہ روشنی ڈالنے کے علاوہ مکالمے اور ڈائیلاگ سے مختلف مسائل کا حل تلاش کرنے کی خاطر 29 ملکوں کے دفاع اور تجزیہ نگاروں کے اجتماع کا اہتمام کیا۔ جہاں تمام مسائل زیربحث آئے اور مختلف زاویوں اور پہلوئوں سے تنازعوں کے حل پہ غور کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ اس سلسلے میں روسی کاوشوں کو سراہنا چاہئے۔

سلطان محمود حالی

سلطان محمود حالی

epaper

ای پیپر-دی نیشن