• news
  • image

ٹویٹ،چوہدری نثار علی خان اور مریم نواز

جب سے ’’ فیس بک، ٹویٹر اور وٹس ایپ‘‘ کے نام سے سوشل میڈیا کی بیماری آئی ہے اس نے پوری دنیا کو وبا کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے عام آدمی سے لے کر وزیر اعظم(پاکستان کے وزیر اعظم کے پاس موبائل فون میں یہ بیماری موجود نہیں ) تک ہر کوئی نئی وبا میں مبتلاء دکھائی دیتا ہے فوج کے سابق ترجمان لیفٹیننٹ عاصم سلیم باجوہ نے ٹویٹر کا اس بے رحمی سے استعمال کیا کہ ان کو ازراہ مذاق ’’جنرل ٹویٹر‘‘کہا جانے لگا انہوں نے ’’ٹویٹر‘‘ کا استعمال ذرائع ابلاغ کو چونکا دینے والی ’’خبر‘‘ دینے کے لئے کیا پریس ریلز کے ذریعے خبردینے کی بجائے ٹویٹ کے ذریعے’’ پیغام رسانی ‘‘ کی بظاہر ’’ٹویٹ‘‘ کو ’’ غیر سرکاری ‘‘ حیثیت حاصل ہوتی ہے لیکن اب تو ٹویٹ کے ذریعے پیغام کو سرکاری پریس ریلیز کی طرح مصدقہ خبر کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے فوج کے موجودہ ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھی لیفٹیننٹ جنرل باجوہ کی چھوڑی ہو ئی روایات کو اپنا یا ہے تیز رفتاری سے ٹویٹر پر رد عمل دینے کی وجہ سے جہاں فوج کے ترجمان کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اس سے کہیں زیادہ وہ’’ ٹویٹ‘‘ واپس لینے پر تنقید برداشت کرنا پڑی جس نے سول ملٹری تعلقات پر سیاست کرنے والوں کو تماشا لگانے کا موقع مل گیا الیکٹرانک میڈیا پر فوج کے نام نہاد ترجمانوں جنہیں چوہدری نثار علی خان نے بھی آڑے ہاتھوں لیا کو۔ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کی جانب سے متعلقہ وزارتوں کو بھجوائے گئے ڈائریکٹو کی رازداری نہ رکھنے پر فوج کے ترجمان کے ٹویٹ کی آڑ لے کر سول اور ملٹری تعلقات کو’’سیاست گری‘‘ کا موقع مل گیاحکومت اور فوج کے تعلقات خراب کرنے کے خواہش مند عناصر نے وہ اودھم مچایا کہ دونوں اداروں کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا نواز شریف حکومت ’’گرانے‘‘ کاخواب دیکھنے والے جمہوریت کی بساط لپیٹ دینے کے منتظر تھے کہ اچانک ڈان لیکس کا ڈراپ سین ہو گیا جس حکومت میں حکومت اور فوج میں ’’پل‘‘ کا کردار ادا کرنے والی چوہدری نثار علی خان جیسی شخصیت ہو، اداروں کے درمیان تصادم نہیں ہو سکتا چوہدری نثار علی خان یہ بات کہتے ہیں کہ اگر انہیں 12اکتوبر1999ء کو وزیر اعظم محمد نواز شریف کی جانب سے جنرل پرویز مشرف کی برطرفی کے اٹھائے جانے والے اقدام کا پیشگی علم ہوتا تو وہ وزیر اعظم کو انتہائی اقدام نہ اٹھانے دیتے۔ عسکری پس منظر رکھنے والے سیاست دان چوہدری نثار علی خان نے ہمیشہ سول ملٹری تعلقات کار کو خراب ہونے سے بچایا یہی وجہ ہے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فوج کے بہت قریب ہیں جب کہ وزیر اعظم محمد نواز شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ’’ سول اتھارٹی ‘‘ پر کمپرو مائز نہیں کرتے اور ’ ’ حکومتی رٹ‘‘ منواتے ہوئے اکثر سپہ سالاروں سے ان کی نہیں بن پائی لیکن یہ چوہدری نثار علی خان کا کمال ہے کہ وہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان فاصلے ختم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے سامنے آجاتے ہیں اکثر و بیشتر ان کی کوششیں باور آور ثابت ہوتی ہیں وزیر اعظم کی ’’کچن کیبنٹ ‘‘سکڑ کر تین ارکان ( نواز شریف، چوہدری نثار علی خان اور اسحق ڈار )پر مشتمل رہ گئی ہے ملکی معاملات کے بارے میں اہم فیصلے کچن کیبنٹ میں ہی ہوتے ہیں بیشتر وزراء کی تو وزیر اعظم ہائوس تک رسائی ہی نہیں جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ ان کی ریٹائرمنٹ سے دو ماہ قبل کر لیا گیا تھا لیکن کچن کیبنٹ کے ارکان نے رازداری قائم رکھنے کے لئے حلف اٹھا رکھا تھا اس نے اس بارے میں آخری وقت تک کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی جب کہ جنرل راحیل شریف آخری وقت تک وزیر اعظم آفس سے مدت ملازمت میں توسیع کی امید لگائے بیٹھے تھے میں نے جب بھی چوہدری نثار علی خان کو کریدنے کی کوشش کی تو وہ چکمہ دے گئے وزیر اعظم کے ’’ڈائریکٹو ‘‘پر میجر جنرل آصف غفور کا ٹویٹ آیا تو یہ چوہدری نثار علی خان ہی تھے جنہوں نے کراچی میں پریس کانفرنس میں فوج کے ترجمان کی جانب سے جاری ہونے والے ٹویٹ پر’’ ناپسندیدگی‘‘ کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسی بھی کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے اس پر رد عمل کے لئے ’’ٹویٹ‘‘ جاری کرنے کی ضرورت پیش آگئی چوہدری نثار علی خان نے جہاں مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ٹویٹ کو ’’ ناپسندیدہ عمل‘‘ قرار دیا وہاں وزیر اعظم آفس سے جس انداز میں ڈائریکٹو کو پبلک کیا گیا اسے بھی حکومت کی غلطی قرار دیا انہیں پچھلے ہفتہ عشرہ کے دوران وزیر اعظم اور آرمی چیف کو ایک ’’صفحہ ‘‘ پر لانے میں بڑے جتن کرنا پڑے میں بہت سی باتوں سے آگاہ ہوں وزیر اعظم نے فوج کے ترجمان کے ٹویٹ کے بعد ڈان لیکس پر انکوائری رپورٹ کی سفارشات کے حوالے نیا نو ٹیفیکیشن جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا وزیر اعظم محمد نواز شریف کی زیر صدارت مسلم لیگی زعماء کے اجلاس میں کہا گیا enough is enough حکومت اس معاملہ پر مزید کچھ نہیں کرے گی سول بالا دستی پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جائے گا مسلم لیگی اجلاس سے قبل ہونے والی وزیر اعظم سے آرمی چیف کی ملاقات میں ’’غلط فہمیاں ‘‘ دور کرنے پر اتفاق رائے ہو گیا تھا لیکن وزیر اعظم کی سوئی اس بات پر اٹکی ہوئی تھی کہ وزارت داخلہ اپنے نوٹیفیکشن میں اس وقت تک تبدیلی نہیں کرے گی جب تک فوج اپنا ٹویٹ واپس نہیں لے گی چوہدری نثار علی خان نے اس معاملہ پر72گھنٹوں میں وزیر اعظم سے 4 ملاقاتوں کے بعد وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان ایک اور ملاقات کرا دی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے تمام معاملات طے پا گئے پیش رفت نہ ہونے پر حکومت اور فوج کے درمیان فاصلے بڑھنے لگے تو چوہدری نثار علی خان نے آگے بڑھ کر صورت حال کو سنبھالا دیا بالآخر ڈان لیکس پر انکوائری رپورٹ کی سفارشات پر جاری ہونے والے تنازعہ کا ڈراپ سین ہو گیا چین روانگی سے قبل وزیر اعظم محمدنواز شریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان ملاقات تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ تک ملاقات جاری رہی جس کے بعد حکومت نے فوج کی مرضی کے مطابق ترمیم شدہ نوٹیفیکیشن جاری کر دیا جس میں پرویز رشید کے خلاف کی گئی کارروائی کی توثیق کے الفاظ اور سید طارق فاطمی سے ان کا عہدہ واپس لینے کی بجائے ہٹائے جانے کے الفاظ شامل کر دئیے گئے اپوزیشن رپورٹ میں مریم نوازکا نام تلاش کر رہی ہے جب کہ اس رپورٹ میں کہیں بھی ان کا ذکر نہیں فوج کے ترجمان نے اپنا ٹویٹ واپس لے کر جہاں جمہوریت کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے وہاں وزیر اعظم کو فائنل اتھارٹی تسلیم کر کے سول حکومت کی بالادستی کا اقرار کر لیاہے اس سے سول حکومت کے وقار میں اضافہ ہوا ہے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پریس کانفرنس اپنی وزارت کی کارکردگی بیان کرنے کے لئے بلوائی تھی لیکن جب وہ اپنا مدعا بیان کر چکے تو صحافیوں نے ان پر ڈان لیکس کے حوالے سوالات کی بوچھاڑکر دی جس پر انہوں نے کہا ہے کہ’’ ڈان لیکس کی انکوائری رپورٹ کے مواد پر کوئی اختلاف نہیں ہے اس کے طریقہ کار پر اختلاف تھا وزیر اعظم آفس سے جو متعلقہ وزارتوں کو حکم جاری ہوا اس پر پریس ریلیز رکاوٹ کا باعث بنا جو ایک لوکل مسئلہ تھا لیکن کچھ لوگوں نے اس معاملہ پر عجب کلمات کہے جن کا کوئی جواز نہیں ڈان لیکس کا معاملہ ختم ہو چکا ہے، بیان بازی حیران کن ہے، ہمارے دشمن سول ملٹری کنفرنٹیشن چاہتے ہیں جب کہ آج ملک میں سول ملٹری ہم آہنگی کی ضرورت ہے سول ملٹری تعلقات میں شگاف ڈالنے کے خواہشمند پاکستان کی کوئی خدمت نہیں کر رہے وہ ’’کرکٹ،ہاکی،سیاست کوئی اور پچ تلاش کر لیں وہ پاکستان کی سیکیورٹی سے نہ کھیلیں۔ انہوں نے چند ریٹائرڈ جرنیلوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جو از خود فوج کے ترجمان بن بیٹھے ہیں چوہدری نثار علی خان کا یہ کہنا درست ہے کہ کہ دشمن چاہتے ہیں کہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کا تماشہ لگا رہے، دشمن کا ایجنڈا سول ملٹری تعلقات کوسبوتاژ کرنا ہے سول ملٹری تعلقات کا تناظر سیاسی نہیں قومی ہے فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھی ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور کہا کہ ’’ہمارے پریس ریلیز کوبنیاد بنا کرحکومت اور فوج کو آمنے سامنے کھڑا کردیا گیا تاہم پاک فوج جمہوریت کی اتنی ہی تائید کرتی ہے جتنا دیگر پاکستانی کرتے ہیںہمارا ٹوئٹ کسی حکومتی شخصیت یا ادارے کے خلاف نہیں تھی وہ اپنا’’ٹویٹ‘‘ واپس لینے میں بدمزہ نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ 29اپریل کاٹویٹ کسی آفس یاشخصیت سے متعلق نہیں تھا اب یہ ٹوئٹ غیر موثر ہوگیا ہے‘‘ لیکن اپوزیشن، حکومت اورفوج کے درمیان ڈان لیکس کا معاملہ افہام و تفہیم اور انتہائی خوش اسلوبی سے طے پانے کے بعد حیران و پریشان دکھائی دے رہی ہے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزازاحسن نے تو وفاقی وزیرداخلہ چوہدر ی نثار علی خان کے کردار اور ٹویٹ کی واپسی پر ڈی جی آئی ایس پی آر سے استعفے کا مطالبہ کر دیا وہ اس بات پر مصر ہیں کہ حکومت مریم نواز کو بچانے میں کامیاب ہو گئی ہے سینیٹ میں اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت نے ڈان لیکس میں 3 بکرے قربان کردیئے۔ ڈان لیکس کے تنازعہ کا ڈراپ سین ہونے سے ملکی سیاسی افق پر میاں نواز شریف ایک بار پھر مضبوط وزیر اعظم بن کر ابھرے ہیں اپوزیشن نے اب ساری امیدیں ’’پانامہ پیپرز لیکس ‘‘پر جوائنٹ انکوائری ٹیم سے وابستہ کر رکھی ہیں۔ دیکھیں اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن