• news

پیپلزپارٹی کا سینٹ سے پاس ہونے والا‘ پانامہ انکوائری بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی تحریک مسترد

اسلام آباد (نوائے وقت نیوز + ایجنسیاں) قومی اسمبلی نے سینٹ سے منظور کردہ پانامہ پیپرز کی تحقیقات سے متعلق بل پیش کرنے کی تحریک ’’پانامہ پیپرز انکوائریز 2016ئ‘‘ کو مسترد کر دیا۔ پیپلز پارٹی کی رکن ڈاکٹر عذرا فضل پچوہو نے ایوان میں اس بل کو پیش کرنے کی تحریک کی اجازت چاہی کہ سپریم کورٹ نے صرف ایک کیس کو مسترد کیا ہے جبکہ پانامہ پیپرز ایک بہت بڑا معاملہ ہے لہذا حکومت پانامہ لیکس بل پر قانون سازی کی اجازت دے مگر حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے بل پیش کرنے کی تحریک کہ یہ کہہ کر سخت مخالفت کی کہ یہ معاملہ بے کار ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں، اپوزیشن کی جانب سے بنایا گیا بل امتیازی ہے اور اسے وزیراعظم اور ان کے خاندان کونشانہ بنانے کیلئے تیار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا سپریم کورٹ اس ضمن میں پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ دونوں ایوان ایک بل ’’پاکستان کمشن آف انکوائری بل‘‘ منظور کر چکے ہیں جو ان دوسرے لوگوں کے بارے میں تحقیقات کے حوالے سے ہے جن کے نام پانامہ پیپرز میں آئے ہیں۔ ڈپٹی سپیکر مرتضی جاوید عباسی نے بل پیش کرنے کی تحریک سے متعلق ووٹنگ کرانے کی بجائے ایوان میں موجود اکثریت کی رائے لے کر اس بل پر قانون سازی کی تحریک مسترد کر دی۔ پیپلز پارٹی کے رکن نوید قمر نے بل کی حمایت میں بات کرتے ہوئے کہا یہ بل ریاست کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ خفیہ طور پر سرمائے کو باہر منتقل کرنے اور اس سے جائیداد بنانے والوں کیلئے قانون سازی ناگزیر ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا یہ معاملہ اس طرح ختم نہیں ہوسکتا۔ لال چند نے کہا اس میں وزیراعظم کا نام نہیں، باقی بہت سے لوگوں کے نام ہیں، ان کی تحقیقات ہونی چاہئے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا پانامہ پیپرز میں جنگ دوسرے لوگوں کے نام آئے ہیں ان کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ جماعت اسلامی کے شیر اکبر خان نے بھی بل کو منظور کرنے پر زور دیا۔ وفاقی وزیر زاہد حامد نے کہا یہ بل بنیادی انسانی حقوق کے برعکس اور آئین سے متصادم ہے۔ نیٹ نیوز کے مطابق بل کی مخالفت کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا بل صرف وزیراعظم کے خاندان کو نشانہ بنانے کیلئے بنایا گیا۔ بل کی مخالفت پر اپوزیشن نے حکومت پر سخت تنقید کی۔ تحریک انصاف نے نیوز لیکس کی انکوائری رپورٹ ایوان میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ بلوچستان میں مزدوروں کے قتل کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کی گئی۔ بل پیش کرتے ہوئے رکن پیپلز پارٹی عذرا فضل پیچوہو نے کہا یہ بل پانامہ پیپرز میں نام آنے والے تمام لوگوں کے لئے ہے چاہتے ہیں اس بل کے تحت کمشن قائم ہو جو تحقیقات کرے۔ ایم کیو ایم کے کنور نوید جمیل کا آئین کے آرٹیکل 248 کو حذف کرنے کا بل بھی مسترد کر دیا گیا۔ وزیرقانون نے کہا صدر، وزیراعظم، گورنر اور وزراء کو حاصل استثنیٰ ختم نہیں کیا جا سکتا۔ آئی این پی کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے اس پر شدید احتجاج کیا اور واضح کیا تمام آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے بارے میں کمشن کے قیام کیلئے سپریم کورٹ نے کوئی قدغن نہیں لگائی۔ حکومتی مخالفت کا کوئی جواز نہیں۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے بل کی مخالفت پر حکومت پر کڑی تنقید کی اور کہا تحقیقات کیلئے پارلیمنٹ کو کردار ادا کرنا چاہئے۔ بل کی مخالفت کا جواز نہیں۔ پیپلز پارٹی کی خاتون رکن نے کہا یہ رویہ درست نہیں، سینٹ نے بلز منظور کئے ہیں اور قومی اسمبلی میں ان کو بلڈوز کیا جا رہا ہے۔ اے پی پی کے مطابق کارپوریٹ بحالی بل 2015ء پیش کرنے کی تحریک پارلیمانی سیکرٹری خزانہ کی مخالفت پر مسترد کر دی گئی۔ ڈاکٹر عذرا فضل نے اپنی تحریک پر زور دیتے ہوئے کہا جو کاروباری ادارے دیوالیہ ہو جاتے ہیں ان کی بحالی کے لئے اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔ نوید قمر نے کہا حکومت کو اعتراضات ہیں تو یہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا جائے مسترد نہ کیا جائے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے بھی کہا بل کو مسترد نہ کیا جائے بلکہ کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔ قومی اسمبلی نے نعیمہ کشور خان کی فوجداری قانون (ترمیمی) بل 2017ء پیش کرنے کی تحریک مسترد کر دی۔ پارلیمانی سیکرٹری داخلہ ڈاکٹر محمد افضل ڈھانڈلہ نے بل کی مخالفت کی۔ قومی اسمبلی نے کنور نوید جمیل کی دستور (ترمیمی) بل 2017ء پیش کرنے کی تحریک کثرت رائے سے مسترد کر دی۔ کنور نوید نے کہا آئین کے تحت ملک کے ہر شخص کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ وفاقی وزیرقانون زاہد حامد نے بل کی مخالفت کی اور کہا صدر، گورنر اور دیگر اہم شخصیات کو فرائض کی ادائیگی کی وجہ سے انہیں یہ رعایت حاصل ہے۔ قومی اسمبلی نے سینٹ سیکرٹریٹ سروسز بل 2017ء اتفاق رائے سے منظور کر لیا۔ وزیر قانون زاہد حامد نے کہا سینٹ سے بل اتفاق رائے سے منظور ہو چکا ہے۔ دیوانی ملازمین (ترمیمی) بل اور حق بلامعاوضہ لازمی تعلیمی (ترمیمی) بل 2017ء متعلقہ قائمہ کمیٹی کو مزید غور کے لئے بھجوا دیا گیا جبکہ فوجداری قانون (ترمیمی) بل 2017ئ، قومی کمشن برائے انسانی حقوق (ترمیمی) بل 2017ئ، قومی مرکز برائے انسداد پر تشدد و انتہا پسندی بل 2017ء قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا۔ اسلام آباد شعبہ زچگی و شفاخانہ جات خدمات زچگی بل 2017ء اور فوجداری قانون (ترمیمی) بل 2017ء قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا، حکومتی مخالفت نہ کرنے پر بل متعلقہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔ دستور (ترمیمی) بل 2017ء پیش کرنے کی تحریک وزیر قانون کی یقین دہانی پر محرک نے واپس لے لی۔ وکلاء بار کونسلز (ترمیمی) بل 2017ء اور انسداد بدعنوانی (ترمیمی) بل 2017ء قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا۔ آئی این پی کے مطابق اپوزیشن و اتحادی جماعتوں نے قومی اسمبلی میں نیوز لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ پیش نہ کرنے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے معاملے پر رولنگ جاری کرنے اور رپورٹ پر پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی میں بحث کا مطالبہ کردیا‘ اپوزیشن نے اس معاملے میں صدر کی خاموشی پر بھی احتجاج کیا اور رپورٹ کو مکمل طور پر منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا۔ نکتہ اعتراض پر تحریک انصاف کی رکن ڈاکٹر شیریں مزاری نے نیوز لیکس تحقیقاتی رپورٹ ایوان میں پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ نے معاملہ کو قومی سلامتی کے منافی قرار دیا ہے ضروری ہے تحقیقات سے قوم آگاہ ہو یہ معاملہ پوری قوم کا ہے۔ بند کمروں میں قومی سلامتی سے متعلق معاملات حل کرلئے گئے کسی کو تفصیلات کے علم نہیں۔ یہ قومی سلامتی کا مسئلہ نہیں تھا تو کور کمانڈرز اور وزیر داخلہ اپنے موقف سے دستبردار ہوں۔ طارق فاطمی کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ طارق فاطمی نے خود پر لگے الزامات کو مسترد کیا ہے، نیوز لیکس غلط ہے پتہ چلائیں کہ جھوٹی خبر لیک کرنے کا ذمہ دار کون تھا۔ تحقیقاتی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جائے۔ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا قوم کو معلوم ہونا چاہئے کہ مسئلہ کیسے حل ہوا ہے پوری قوم کو اس معاملے پر تشویش تھی۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے مطالبہ کیا پارلیمنٹ میرا ساتھ دے پارلیمنٹ کی بالادستی کی قرارداد لانا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی ادارہ پارلیمنٹ سے بالادست نہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے بھی نیوز لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔ تحریک انصاف کی رکن منزہ حسن نے کہا نیوز لیکس کا معاملہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے۔ قومی اسمبلی میں بلدیاتی نمائندوں کے کردار میں اضافے اور مالی خودمختاری کے حوالے سے اسلام آباد دارالحکومت علاقہ مقامی حکومت (ترمیمی) بل 2017ء قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا۔ ایوان میںبدنیتی پر مبنی تحقیقات کے ذریعے لوگوں کو ناجائز طریقے سے پھنسانے والوں کو سزا دینے کے لئے مجموعہ تعزیرات پاکستان (ترمیمی) بل 2017ء بل پیش کردیا گیا۔ محرک ساجد احمد نے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا بل کی منظوری سے بدنیتی پر مبنی تحقیقات کے ذریعے لوگوں کو ناجائز طور پر پھنسانے والوں کو تین سال کی سزا دی جاسکے گی۔ پارلیمانی سیکرٹری داخلہ ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ نے بل کی مخالفت نہیں کی۔ بل قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو ارسال کردیا گیا۔آئینی معاملات کے لئے نئی عدالت قائم کرنے کے حوالے سے دستور میں ترمیم کا بل محرک نے وزیر قانون کی مخالفت پر واپس لے لیا۔ بعدازاں قومی اسمبلی کا اجلاس آج صبح ساڑھے 10 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔شاہ محمود نے کہا طارق فاطمی کو قومی سلامتی کے منافی اقدام پر ہٹایا گیا تو وہ چین میں سرکاری وفد کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن